سنن دارمي
من كتاب الديات
دیت کے مسائل
25. باب لاَ يُؤْخَذُ أَحَدٌ بِجِنَايَةِ غَيْرِهِ:
مجرم کے بدلے کسی اور سے مواخذہ نہ ہو گا
حدیث نمبر: 2425
أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ يَعْنِي: ابْنَ حَازِمٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ الْمَلِكِ بْنَ عُمَيْرٍ، حَدَّثَنِي إِيَادُ بْنُ لَقِيطٍ، عَنْ أَبِي رِمْثَةَ، قَالَ: قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ وَمَعِيَ ابْنٌ لِي، وَلَمْ نَكُنْ رَأَيْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. فَأَتَيْتُهُ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَيْهِ ثَوْبَانِ أَخْضَرَانِ. فَلَمَّا رَأَيْتُهُ عَرَفْتُهُ بِالصِّفَةِ، فَأَتَيْتُهُ، فَقَالَ:"مَنْ هَذَا الَّذِي مَعَكَ؟". قُلْتُ: ابْنِي وَرَبِّ الْكَعْبَةِ، فَقَالَ:"ابْنُكَ؟"، فَقُلْتُ: أَشْهَدُ بِهِ. قَالَ: "فَإِنَّ ابْنَكَ هَذَا لَا يَجْنِي عَلَيْكَ وَلَا تَجْنِي عَلَيْهِ".
سیدنا ابورمثہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اپنے بیٹے کے ساتھ مدینہ آیا، ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا نہیں تھا، میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوہرے کپڑوں میں باہر تشریف لائے، جب میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نشانی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچان لیا، میں آپ سے قریب ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ تمہارے ساتھ کون ہے؟“ میں نے کہا: ربّ کعبہ کی قسم یہ میرا لڑکا ہے، فرمایا: ”کیا تمہارا ہی بیٹا ہے؟“ عرض کیا: جی ہاں، میں اسکی شہادت دیتا ہوں (یا آپ گواہ رہئے یہ میرا بیٹا ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک تمہارا بیٹا تمہارے گناہ و جرم کا ذمہ دار نہ ہوگا اور نہ تم اس کے گناہ و جرم کے ذمہ دار ہو گے۔“
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2433]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 4495]، [نسائي 4847]، [ابن حبان 5995]، [موارد الظمآن 1522]
وضاحت: (تشریح حدیث 2424)
«أَشْهَدُ بِهِ» میں احتمال ہے کہ صیغہ طلب ہو اور اس کا معنی ہوں کہ آپ گواہ رہیں کہ میرا بیٹا میری صلب سے ہے، اور اس کا بھی احتمال ہے کہ صیغہ متکلم کا ہو اور وہ ثابت کر رہے ہوں کہ یقیناً یہ میرا بیٹا ہے، اس سے دراصل مقصود یہ تھا کہ جرائم کی ضمانت جاہلیت میں اس طور پر لازم ہوتی تھی کہ والد کی جگہ بیٹا اور بیٹے کی جگہ باپ پر عائد کر دی جاتی تھی، اس اصول کی طرف سیدنا ابورمثہ رضی اللہ عنہ کا اشارہ تھا اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے خیال و نظر کی تردید کر دی اور فرمایا کہ وہ تیرے جرائم، گناہ کا ذمہ دار نہیں اور تو اسکے جرائم پر جواب دہ نہیں۔
یعنی اگر جرم کا ارتکاب و صدور اس کی جانب سے ہوگا تو اس کی پاداش میں تجھے مواخذے میں گرفتار نہیں کیا جائے گا اور اس کی ضمان تیرے سر نہ ہوگی، اسی طرح اس کے برعکس اگر وہ مرتکبِ جرم ہوگا تو اس ارتکاب کا جرم اس پر پڑے گا، اس کے جرم کی باز پرس تم سے نہ ہو گی، جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: «﴿وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى﴾ [الإسراء: 15] » یعنی کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔
اپنا بوجھ آپ ہی اٹھانا ہوگا، جو کرے گا سو بھرے گا۔
(مولانا صفی الرحمٰن مبارکپوری رحمہ اللہ)۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح