سنن دارمي
من كتاب الديات
دیت کے مسائل
21. باب دِيَةِ الْخَطَإِ عَلَى مَنْ هِيَ:
قتل خطا کی دیت کون ادا کرے گا
حدیث نمبر: 2419
أَخْبَرَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، وَأَبِي سَلَمَةَ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّ امْرَأَتَيْنِ مِنْ هُذَيْلٍ اقْتَتَلَتَا، فَرَمَتْ إِحْدَاهُمَا الْأُخْرَى بِحَجَرٍ، فَقَتَلَتْهَا وَمَا فِي بَطْنِهَا، فَاخْتَصَمُوا فِي الدِّيَةِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَضَى: أَنَّ دِيَةَ جَنِينِهَا غُرَّةٌ: عَبْدٌ أَوْ وَلِيدَةٌ، وَقَضَى بِدِيَتِهَا عَلَى عَاقِلَتِهَا، وَوَرِثَتْهَا وَرَثَتُهَا وَلَدُهَا وَمَنْ مَعَهَا، فَقَالَ حَمَلُ بْنُ النَّابِغَةِ الْهُذَلِيُّ: كَيْفَ أَغْرَمُ مَنْ لَا شَرِبَ وَلَا أَكَلَ، وَلَا نَطَقَ وَلَا اسْتَهَلّ، فَمِثْلُ ذَلِكَ يُطَلُّ؟، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّمَا هُوَ مِنْ إِخْوَانِ الْكُهَّانِ". مِنْ أَجْلِ سَجْعِهِ الَّذِي سَجَعَ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ قبیلہ ہذیل کی دو عورتیں لڑ پڑیں اور ایک نے دوسری کو پتھر دے مارا جس سے وہ مر گئی اور جو اس کے پیٹ میں تھا وہ بھی ہلاک ہو گیا۔ مقتولہ کے وارث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یہ جھگڑا لے کر آئے تو آپ نے جنین (پیٹ کا پچہ) کے بدلے ایک غلام یا لونڈی کا فیصلہ کیا اور مقتولہ کی دیت کو قاتلہ کے رشتہ داروں کے ذمہ لگایا، اور اس دیت کا وارث مقتولہ کی اولاد اور شوہر وغیرہ کو قرار دیا، اس وقت حمل بن نابغہ ہذلی نے کہا: یا رسول الله! ہم ایسے بچے کا بدلہ کیسے دیں جس نے نہ پیا، نہ کھایا، نہ بولا، نہ چیخا، اس طرح کا حکم تو قابلِ اعتبار نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ تو کاہنوں کے بھائیوں میں سے معلوم ہوتا ہے، کیونکہ اس نے کاہنوں جیسی قافیہ بندی کی۔“
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2427]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے اور متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5758]، [مسلم 1681]، [أبوداؤد 4576]، [نسائي 4833]، [أبويعلی 5917]، [ابن حبان 6017]
وضاحت: (تشریح احادیث 2417 سے 2419)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قتلِ خطا کی دیت قاتل کے رشتہ داروں کے ذمہ ہوگی، وہ سب مل کر ادا کریں گے۔
دوسری بات اس حدیث میں کاہنوں سے بیزاری اور ان سے دور رہنے کی ہے، کاہن وہ لوگ ہوتے ہیں جو غیب دانی کا دعویٰ کرتے ہیں اور مستقبل میں کیا ہونے والا ہے وہ بتاتے ہیں، ایسے لوگ جھوٹے، مکار اور فریبی ہوتے ہیں، جو ان کے پاس جائے اس کی چالیس دن تک نماز قبول نہیں ہوگی، اور جو ان کی بات کی تصدیق کرے وہ شریعتِ محمدی کا منکر ہے، عرب کے کاہن مقفع و مسجع عبارتیں اپنے مریدوں کے سامنے ذکر کر کے انہیں لبھاتے تھے، اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی فقرہ بندی کو نا پسند فرمایا کیونکہ یہ شاعرانہ تخیل تھا، حقیقت سے اس امر کا کوئی واسطہ نہیں۔
شریعت کا حکم قتلِ خطا میں دیت اور جنین کے بدلے غلام یا لونڈی آزاد کرنا ہے، اس حدیث سے مقدمہ حاکم کے پاس لے جانا، اور جنین اگرچہ مرده ساقط ہوا ہو مگر اس کی دیت کا واجب ہونا ثابت ہوتا ہے۔
واللہ اعلم۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه