صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
7. سورة الأَعْرَافِ:
باب: سورۃ اعراف۔
قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: وَرِيَاشًا الْمَالُ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ، الْمُعْتَدِينَ: فِي الدُّعَاءِ وَفِي غَيْرِهِ، عَفَوْا: كَثُرُوا وَكَثُرَتْ أَمْوَالُهُمْ، الْفَتَّاحُ: الْقَاضِي، افْتَحْ بَيْنَنَا: اقْضِ بَيْنَنَا، نَتَقْنَا: الْجَبَلَ رَفَعْنَا، انْبَجَسَتْ: انْفَجَرَتْ، مُتَبَّرٌ: خُسْرَانٌ، آسَى: أَحْزَنُ، تَأْسَ: تَحْزَنْ، وَقَالَ غَيْرُهُ: مَا مَنَعَكَ أَنْ لَا تَسْجُدَ: يَقُولُ مَا مَنَعَكَ أَنْ تَسْجُدَ، يَخْصِفَانِ: أَخَذَا الْخِصَافَ مِنْ وَرَقِ الْجَنَّةِ، يُؤَلِّفَانِ الْوَرَقَ يَخْصِفَانِ الْوَرَقَ بَعْضَهُ إِلَى بَعْضٍ، سَوْآتِهِمَا: كِنَايَةٌ عَنْ فَرْجَيْهِمَا، وَمَتَاعٌ إِلَى حِينٍ: هُوَ هَا هُنَا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَالْحِينُ عِنْدَ الْعَرَبِ مِنْ سَاعَةٍ إِلَى مَالَا يُحْصَى عَدَدُهُ الرِّيَاشُ وَالرِّيشُ وَاحِدٌ وَهْوَ مَا ظَهَرَ مِنَ اللِّبَاسِ، قَبِيلُهُ: جِيلُهُ الَّذِي هُوَ مِنْهُمْ، ادَّارَكُوا: اجْتَمَعُوا وَمَشَاقُّ الْإِنْسَانِ وَالدَّابَّةِ كُلُّهَا يُسَمَّى سُمُومًا، وَاحِدُهَا سَمٌّ، وَهِيَ عَيْنَاهُ وَمَنْخِرَاهُ وَفَمُهُ وَأُذُنَاهُ وَدُبُرُهُ وَإِحْلِيلُهُ، غَوَاشٍ: مَا غُشُّوا بِهِ، نُشُرًا: مُتَفَرِّقَةً، نَكِدًا: قَلِيلًا، يَغْنَوْا: يَعِيشُوا، حَقِيقٌ: حَقٌّ، اسْتَرْهَبُوهُمْ: مِنَ الرَّهْبَةِ، تَلَقَّفُ: تَلْقَمُ، طَائِرُهُمْ: حَظُّهُمْ طُوفَانٌ مِنَ السَّيْلِ، وَيُقَالُ: لِلْمَوْتِ الْكَثِيرِ الطُّوفَانُ الْقُمَّلُ الْحُمْنَانُ يُشْبِهُ صِغَارَ الْحَلَمِ عُرُوشٌ وَعَرِيشٌ بِنَاءٌ، سُقِطَ: كُلُّ مَنْ نَدِمَ فَقَدْ سُقِطَ فِي يَدِهِ الْأَسْبَاطُ، قَبَائِلُ بَنِي إِسْرَائِيلَ، يَعْدُونَ فِي السَّبْتِ: يَتَعَدَّوْنَ لَهُ يُجَاوِزُونَ تَجَاوُزٌ بَعْدَ تَجَاوُزٍ، تَعْدُ تُجَاوِزْ، شُرَّعًا: شَوَارِعَ، بَئِيسٍ: شَدِيدٍ، أَخْلَدَ: إِلَى الْأَرْضِ قَعَدَ وَتَقَاعَسَ، سَنَسْتَدْرِجُهُمْ: أَيْ نَأْتِيهِمْ مِنْ مَأْمَنِهِمْ كَقَوْلِهِ تَعَالَى، فَأَتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ حَيْثُ لَمْ يَحْتَسِبُوا مِنْ جِنَّةٍ: مِنْ جُنُونٍ أَيَّانَ مُرْسَاهَا مَتَى خُرُوجُهَا، فَمَرَّتْ بِهِ: اسْتَمَرَّ بِهَا الْحَمْلُ فَأَتَمَّتْهُ، يَنْزَغَنَّكَ: يَسْتَخِفَّنَّكَ طَيْفٌ مُلِمٌّ بِهِ لَمَمٌ وَيُقَالُ، طَائِفٌ: وَهُوَ وَاحِدٌ، يَمُدُّونَهُمْ: يُزَيِّنُونَ، وَخِيفَةً: خَوْفًا وَخُفْيَةً مِنَ الْإِخْفَاءِ وَالْآصَالُ وَاحِدُهَا أَصِيلٌ وَهُوَ مَا بَيْنَ الْعَصْرِ إِلَى الْمَغْرِبِ كَقَوْلِهِ: بُكْرَةً وَأَصِيلًا.
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «يوارى»، «سواتكم»، «ورياشا» میں «رياشا» سے مال اسباب مراد ہے۔ «لا يحب المعتدين» میں «معتدي» سے دعا میں حد سے بڑھ جانے والے مراد ہیں۔ «عفوا» کا معنی بہت ہو گئے ان کے مال زیادہ ہوئے۔ «فتاح» کہتے ہیں فیصلہ کرنے والے کو۔ «افتح بيننا» ہمارا فیصلہ کر۔ «نتقنا» اٹھایا۔ «انبجست» پھوٹ نکلے۔ «متبر» تباہی نقصان۔ «آسى» غم کھاؤں۔ «فلا تأس» غم نہ کھا۔ اوروں نے کہا «ما منعك أن لا تسجد» میں «لا» زائد ہے۔ یعنی تجھے سجدہ کرنے سے کس بات نے روکا «يخصفان من ورق الجنة» انہوں نے بہشت کے پتوں کا «دونا» بنا لیا یعنی بہشت کے پتے اپنے اوپر جوڑ لیے (تاکہ ستر نظر نہ آئے)۔ «سوآتهما» سے شرمگاہ مراد ہے۔ «ومتاع إلى حين» میں «حين» سے قیامت مراد ہے۔ عرب کے محاورے میں «حين» ایک ساعت سے لے کے بے انتہا مدت کو کہہ سکتے ہیں۔ «رياشا» اور «ريش» کے معنی ایک ہیں یعنی ظاہری لباس۔ «قبيله» اس کی ذات والے شیطان جن میں سے وہ خود بھی ہے۔ «اداركوا» اکٹھا ہو جائیں گے آدمی اور جانور سب کے سوراخ (یا مساموں) کو «سموم» کہتے ہیں اس کا مفرد «سم» یعنی آنکھ کے سوراخ، نتھنے، منہ، کان، پاخانہ کا مقام، پیشاب کا مقام۔ «غواش» غلاف جس سے ڈھانپے جائیں گے۔ «نشرا» متفرق «نكدا» تھوڑا۔ «يغنوا» جیے یا بسے۔ «حقيق» حق واجب۔ «استرهبوهم»، «رهبة» سے نکلا ہے یعنی ڈرایا۔ «تلقف» لقمہ کرنے لگا (نگلنے لگا)۔ «طائرهم» ان کا نصیبہ حصہ طوفان سیلاب، کبھی موت کی کثرت کو بھی طوفان کہتے ہیں۔ «قمل» چچڑیاں چھوٹی جوؤں کی طرح۔ «عروش» اور «عريش» عمارت، «سقط» جب کوئی شرمندہ ہوتا ہے تو کہتے ہیں «سقط في يده.» ۔ «الأسباط» بنی اسرائیل کے خاندان قبیلے «يعدون في السبت» ہفتہ کے دن حد سے بڑھ جاتے تھے اسی سے ہے «تعد» یعنی حد سے بڑھ جائے۔ «شرعا» پانی کے اوپر تیرتے ہوئے۔ «بئيس» سخت۔ «أخلد» بیٹھ رہا، پیچھے ہٹ گیا۔ «سنستدرجهم» یعنی جہاں سے ان کو ڈر نہ ہو گا ادھر سے ہم آئیں گے جیسے اس آیت میں ہے «فأتاهم الله من حيث لم يحتسبوا» یعنی اللہ کا عذاب ادھر سے آ پہنچا جدھر سے گمان نہ تھا۔ «من جنة» یعنی جنون دیوانگی «فمرت به» برابر پیٹ رہا، اس نے پیٹ کی مدت پوری کی «ينزغنك» گدگدائے پھسلائے۔ «طيف» اور «طائف» شیطان کی طرف سے جو اترے یعنی وسوسہ آئے۔ دونوں کا معنی ایک ہے «يمدونهم» ان کو اچھا کر دکھلاتے ہیں «خفية» کا معنی خوف، ڈر «خيفة»، «الإخفاء» سے ہے یعنی چپکے چپکے «الآصال»، «أصيل» کی جمع ہے وہ وقت جو عصر سے مغرب تک ہوتا ہے جیسے اس آیت میں ہے «بكرة وأصيلا» ۔