سنن دارمي
من النذور و الايمان
نذر اور قسم کے مسائل
5. باب النَّهْيِ عَنِ النَّذْرِ:
نذر کی ممانعت کا بیان
حدیث نمبر: 2377
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، أَخْبَرَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ: "إِنَّ النَّذْرَ لَا يَرُدُّ شَيْئًا، وَإِنَّمَا يُسْتَخْرَجُ بِهِ مِنَ الشَّحِيحِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نذر کسی چیز کو لوٹا نہیں سکتی ہے، بس اس کے ذریعہ بخیل و کنجوس سے پیسہ نکل آتا ہے۔“
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2385]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6608]، [مسلم 1639]، [أبوداؤد 3287]، [نسائي 2810]، [ابن ماجه 2122]، [أبويعلی 237/11]، [ابن حبان 4375]
وضاحت: (تشریح حدیث 2376)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ہر چیز پر قضاء و قدر حاوی ہے، جیسا کہ فرمانِ الٰہی ہے: «﴿إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْنَاهُ بِقَدَرٍ﴾ [القمر: 49] » لہٰذا نذر و منّت اس الٰہی فیصلے اور تقدیر کو نہ بدل سکتے ہیں نہ لوٹا سکتے ہیں، بس دل کا بہلاوہ ہوتا ہے، اور اس کی نذر سے بخیل کی جیب ہلکی ہو جاتی ہے، کیونکہ کنجوس آدمی بغیر مصیبت میں پڑے خرچ نہیں کرتا، جب آفت آتی ہے تو نذریں مانتا ہے، اس وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نذر سے منع کیا اور اس کو مکروہ جانا کیونکہ یہ بخلاء کا شعار ہے، سخی اور متقی تو بغیر نذر کے اللہ کی راہ میں ہمیشہ خرچ کرتا ہے۔
بعض علماء نے کہا: نذر سے ممانعت اس حال میں ہے کہ نذر ماننے والا یہ سمجھے کہ اس کی نذر کی وجہ سے تقدیر بدل جائے گی، یا جو آفت تقدیر میں ہے وہ ٹل جائے گی، اور اگر یہ اعتقاد و نیّت نہ ہو تو نذر مانی جا سکتی ہے۔
واللہ اعلم۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه