سنن دارمي
من كتاب الاحدود
حدود کے مسائل
6. باب الْمُعْتَرِفِ بِالسَّرِقَةِ:
چوری کا اعتراف کرنے والے کے ساتھ سلوک کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 2340
أَخْبَرَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ إِسْحَاق بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ أَبِي الْمُنْذِرِ مَوْلَى أَبِي ذَرٍّ، عَنْ أَبِي أُمَيَّةَ الْمَخْزُومِيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِسَارِقٍ اعْتَرَفَ اعْتِرَافًا، لَمْ يُوجَدْ مَعَهُ مَتَاعٌ، فَقَالَ: "مَا إِخَالُكَ سَرَقْتَ؟"قَالَ: بَلَى، قَالَ:"مَا إِخَالُكَ سَرَقْتَ؟"قَالَ: بَلَى، قَالَ:"فَاذْهَبُوا فَاقْطَعُوا يَدَهُ ثُمَّ جِيئُوا بِهِ"فَقَطَعُوا يَدَهُ، ثُمَّ جَاءُوا بِهِ، فَقَالَ:"اسْتَغْفِرِ اللَّهَ وَتُبْ إِلَيْهِ"، فَقَالَ: أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ، فَقَالَ:"اللَّهُمَّ تُبْ عَلَيْهِ، اللَّهُمَّ تُبْ عَلَيْهِ".
سیدنا ابوامیہ مخزومی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک چور کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا جس نے چوری کا اعتراف کر لیا لیکن چوری کا مال اس کے پاس سے برآمد نہ ہوا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرا خیال ہے کہ تو نے چوری نہیں کی؟“ وہ بولا: نہیں میں نے چوری کی ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں سمجھتا ہوں تو نے چوری نہیں کی؟“ اس نے عرض کیا: میں نے چوری کی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اعتراف کے بعد فرمایا: ”اسے لیجاؤ اور اس کا ہاتھ کاٹ دو، پھر اسے میرے پاس لے کر آنا۔“ چنانچہ صحابہ کرام نے اس کا ہاتھ کاٹا اور اسے لے کر حاضرِ خدمت ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”الله تعالیٰ سے بخشش کی دعا مانگو اور اس سے توبہ کرو“، اس شخص نے مغفرت طلب کی اور اللہ سے توبہ کی، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! اسے معاف کر دے، اے اللہ! اسے معاف کر دے۔“
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «لم يحكم عليه المحقق، [مكتبه الشامله نمبر: 2349]»
یہ حدیث متعدد طرق سے مروی ہے اور بعض اسانید صحیح ہیں۔ دیکھئے: [أبوداؤد 4380]، [نسائي 4892]، [ابن ماجه 2597]، [طبراني 360/22، 905]، [أحمد 293/5]، [معرفة السنن و الآثار للبيهقي 17228]، [الحاكم 381/4، وقال هذا حديث على شرط مسلم ولم يخرجاه]
وضاحت: (تشریح حدیث 2339)
اس حدیث میں رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے چور کے اعترافِ جرم کرنے پر بھی فرمایا کہ میرا خیال ہے تم نے چوری نہیں کی، یہ غالباً اس لئے فرمایا تھا کہ وہ شخص اپنے نفس پر رحم کرے اور اپنے گناہ کو ظاہر نہ کرے اور الله تعالیٰ سے بصدق و صفا توبہ کرے، اور ہر جرم و حد کا یہی حکم ہے کہ جب اللہ تعالیٰ ظاہر نہ کرے تو توبہ و استغفار کرنا چاہیے اور حاکم کو بھی چاہیے کہ مجرم کی اچھی رہنمائی کرے، اور مناسب تعلیم دے، اور توبہ و استغفار کی تلقین کرے، پھر حد جاری کرے، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حسنِ تعامل دیکھئے: توبہ و استغفار کراتے ہیں پھر باری تعالیٰ سے التجا کرتے ہیں، اے الله اس کی توبہ قبول کر لے، اس کو معاف کر دے۔
نیز اس حدیث سے معلوم ہوا کہ چوری کا مال برآمد نہ ہو تو چور سے عدالت دو بار اعتراف کرائے گی، لیکن اکثر علماء نے کہا کہ ایک بار کا اعتراف ہی کافی ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: لم يحكم عليه المحقق