Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن دارمي
من كتاب الطلاق
طلاق کے مسائل
4. باب مَا يُحِلُّ الْمَرْأَةَ لِزَوْجِهَا الذي طَلَّقَهَا فَبَتَّ طَلاَقَهَا:
وہ عورت جس کو تین طلاقیں دی جا چکی ہوں کس طرح پہلے شوہر کے لئے حلال ہو گی؟
حدیث نمبر: 2304
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: جَاءَتِ امْرَأَةُ رِفَاعَةَ الْقُرَظِيِّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَهُ أَبُو بَكْرٍ، وَخَالِدُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ عَلَى الْبَابِ يَنْتَظِرُ أَنْ يُؤْذَنَ لَهُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي كُنْتُ عِنْدَ رِفَاعَةَ فَطَلَّقَنِي فَبَتَّ طَلَاقِي، قَالَ: "أَتُرِيدِينَ أَنْ تَرْجِعِي إِلَى رِفَاعَةَ؟ لَا، حَتَّى يَذُوقَ عُسَيْلَتَكِ، وَتَذُوقِي عُسَيْلَتَهُ". فَنَادَى خَالِدُ بْنُ سَعِيدٍ أَبَا بَكْرٍ: أَلَا تَرَى مَا تَجْهَرُ بِهِ هَذِهِ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟.
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ رفاعہ القرظی کی بیوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے اور سیدنا خالد بن سعید بن العاص رضی اللہ عنہ دروازے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری کے طلب گار تھے، اس عورت نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں رفاعہ کے نکاح میں تھی، پھر انہوں نے مجھے تین طلاقیں دے دیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم رفاعہ کے پاس جانا چاہتی ہو؟ نہیں، یہاں تک کہ وہ (دوسرا شوہر) تمہارا مزہ چکھ لے اورتم اس کا مزہ چکھ لو (یہ جماع کی طرف اشارہ ہے)، یہ سن کر سیدنا خالد بن سعید رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو پکارا: کیا آپ اس عورت کو نہیں دیکھتے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کس طرح کی باتیں زور زور سے کر رہی ہے؟

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «الحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2313]»
یہ حدیث صحیح اور متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2629، 5239]، [مسلم 1433]، [ترمذي 1118]، [ابن ماجه 1932]، [أبويعلی 4423]، [ابن حبان 4121]، اس روایت میں کچھ اختصار ہے جس کی اگلی حدیث میں تفصیل ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: الحديث متفق عليه