Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن دارمي
من كتاب الطلاق
طلاق کے مسائل
3. باب لاَ طَلاَقَ قَبْلَ نِكَاحٍ:
نکاح سے پہلے طلاق دینا درست نہیں ہے
حدیث نمبر: 2303
أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ دَاوُدَ، حَدَّثَنِي الزُّهْرِيُّ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ الْحَكَمُ، قَالَ لِي يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ: أَفْصِلُ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَتَبَ إِلَى أَهْلِ الْيَمَنِ: "أَنْ لَا يَمَسَّ الْقُرْآنَ إِلَّا طَاهِرٌ، وَلَا طَلَاقَ قَبْلَ إِمْلَاكٍ، وَلَا عَتَاقَ حَتَّى يَبْتَاعَ". سُئِلَ أَبُو مُحَمَّدٍ، عَنْ سُلَيْمَانُ، قَالَ: أَحْسَبُهُ كَاتِبًا مِنْ كُتَّابِ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ.
حکم نے کہا: یحییٰ بن حمزہ نے مجھ سے کہا کہ میں یقین سے کہتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلِ یمن کے لئے لکھا تھا کہ قرآن پاک کو صرف پاک آدمی ہی ہاتھ لگائے، اور نکاح کی ملکیت سے پہلے طلاق درست نہیں، اور خریدنے سے پہلے آزادی ممکن نہیں۔
امام دارمی رحمہ اللہ سے سلیمان کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: یہ شاید عمر بن عبدالعزیز کے کتاب میں سے تھے۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 2312]»
اس سند سے یہ روایت ضعیف ہے لیکن دیگر اسانید سے بھی مروی ہے۔ امام ترمذی نے اس روایت کے آخری دونوں جملوں نکاح وعتاق کو صحیح قرار دیا ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2191]، [ترمذي 1182]، [ابن ماجه 2047]، [ابن حبان 6559]، [موارد الظمآن 793]

وضاحت: (تشریح حدیث 2302)
گرچہ اس حدیث کی سند میں کلام ہے لیکن اس کا معنی صحیح ہے۔
بغیر وضو قرآن چھونا منع ہے جیسا کہ آیتِ کریمہ میں ہے: «‏‏‏‏﴿لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ﴾ [الواقعة: 79] » اور نکاح کرنے سے پہلے عورت کو طلاق دینا اس کا ثبوت سنن میں ہے کہ یہ طلاق واقع نہیں ہوگی، امام شافعی رحمہ اللہ اہل الحدیث اور دواد ظاہری وغیرہ کثیر علماء کا یہ قول ہے کہ نکاح سے پہلے طلاق واقع نہیں ہوتی۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی باب باندھا: «لَا طَلَاقَ قَبْلَ النِّكَاحِ» اور «﴿إِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوهُنَّ﴾ [الأحزاب: 49] » سے استدلال کیا کہ نکاح کر لو تبھی طلاق دو تو طلاق واقع ہوگی ورنہ نہیں، اور اس سلسلے میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول نقل کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے طلاق کو نکاح کے بعد ذکر کیا ہے، لہٰذا نکاح سے پہلے کوئی یہ کہے کہ فلاں عورت کو طلاق ہے یا اگر کہے کہ فلاں عورت سے میں نے نکاح کیا تو طلاق ہے، اس صورت میں بھی طلاق واقع نہ ہوگی۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے 23 تابعین کے نام ذکر کئے ہیں جو اسی کے قائل تھے۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک ایسی عورت جس کو نکاح سے پہلے طلاق دی گئی مطلقہ ہوجائے گی۔
امام مالک رحمہ اللہ نے کہا اگر کسی قبیلہ یا شہر کی عورت سے کہے، یا کسی دن یا مہینے کے ساتھ مخصوص کرے تو اس صورت میں طلاق ہوجائے گی (یعنی یہ کہے کہ فلاں شہر یا قبیلہ کی عورت سے میں نے شادی کی تو اسے طلاق ہے، یا فلاں مہینے میں شادی کروں تو طلاق ہے)۔
راجح پہلا قول ہے۔
غلام کے آزاد کرنے کا بھی یہی حکم ہے کہ کسی نے غلام خریدنے سے پہلے کہا کہ فلاں کا غلام آزاد ہے تو وہ خریدنے کے پہلے یا بعد میں آزاد نہ ہوگا۔
(واللہ اعلم)۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف