سنن دارمي
من كتاب الرويا
کتاب خوابوں کے بیان میں
13. باب في الْقُمُصِ وَالْبِئْرِ وَاللَّبَنِ وَالْعَسَلِ وَالسَّمْنِ وَالْقَمَرِ وَغَيْرِ ذَلِكَ في النَّوْمِ:
قمیص، کنواں، دودھ، شہد، گھی، کھجور وغیرہ خواب میں دیکھنے کا بیان
حدیث نمبر: 2200
أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ بْنُ يَعِيشَ، حَدَّثَنَا يُونُسُ هُوَ ابْنُ بُكَيْرٍ، أَخْبَرَنَا ابْنُ إِسْحَاق، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: كَانَتْ امْرَأَةٌ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ لَهَا زَوْجٌ تَاجِرٌ يَخْتَلِفُ، فَكَانَتْ تَرَى رُؤْيَا كُلَّمَا غَابَ عَنْهَا زَوْجُهَا، وَقَلَّمَا يَغِيبُ إِلَّا تَرَكَهَا حَامِلًا، فَتَأْتِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَتَقُولُ: إِنَّ زَوْجِي خَرَجَ تَاجِرًا فَتَرَكَنِي حَامِلًا، فَرَأَيْتُ فِيمَا يَرَى النَّائِمُ: أَنَّ سَارِيَةَ بَيْتِي انْكَسَرَتْ، وَأَنِّي وَلَدْتُ غُلَامًا أَعْوَرَ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"خَيْرٌ، يَرْجِعُ زَوْجُكِ عَلَيْكِ إِنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى صَالِحًا، وَتَلِدِينَ غُلَامًا بَرًّا". فَكَانَتْ تَرَاهَا مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا، كُلُّ ذَلِكَ تَأْتِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَقُولُ ذَلِكَ لَهَا فَيَرْجِعُ زَوْجُهَا، وَتَلِدُ غُلَامًا، فَجَاءَتْ يَوْمًا كَمَا كَانَتْ تَأْتِيهِ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَائِبٌ، وَقَدْ رَأَتْ تِلْكَ الرُّؤْيَا، فَقُلْتُ لَهَا: عَمَّ تَسْأَلِينَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا أَمَةَ اللَّهِ؟ فَقَالَتْ: رُؤْيَا كُنْتُ أُرَاهَا، فَآتِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَسْأَلُهُ عَنْهَا فَيَقُولُ خَيْرًا، فَيَكُونُ كَمَا قَالَ. فَقُلْتُ: فَأَخْبِرِينِي مَا هِيَ. قَالَتْ: حَتَّى يَأْتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَعْرِضَهَا عَلَيْهِ كَمَا كُنْتُ أَعْرِضُ. فَوَاللَّهِ مَا تَرَكْتُهَا حَتَّى أَخْبَرَتْنِي، فَقُلْتُ: وَاللَّهِ لَئِنْ صَدَقَتْ رُؤْيَاكِ، لَيَمُوتَنَّ زَوْجُكِ وَتَلِدِينَ غُلَامًا فَاجِرًا، فَقَعَدَتْ تَبْكِي، وَقَالَتْ مَا لِي حِينَ عَرَضْتُ عَلَيْكِ رُؤْيَايَ؟ فَدَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهِيَ تَبْكِي، فَقَالَ لَهَا: مَا لَهَا يَا عَائِشَةُ؟ فَأَخْبَرْتُهُ الْخَبَرَ وَمَا تَأَوَّلْتُ لَهَا. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"مَهْ يَا عَائِشَةُ، إِذَا عَبَرْتُمْ لِلْمُسْلِمِ الرُّؤْيَا، فَاعْبُرُوهَا عَلَى الْخَيْرِ، فَإِنَّ الرُّؤْيَا تَكُونُ عَلَى مَا يَعْبُرُهَا صَاحِبُهَا". فَمَاتَ وَاللَّهِ زَوْجُهَا، وَلَا أُرَاهَا إِلَّا وَلَدَتْ غُلَامًا فَاجِرًا.
ام المومنین زوجہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: مدینے کی ایک عورت تھی جس کا شوہر تاجر تھا اور سفر پر آیا جایا کرتا تھا، اور جب بھی اس کا شوہر سفر پر جاتا وہ خواب دیکھتی اور بہت کم ایسا ہوتا کہ وہ سفر پر جائے اور اس کی بیوی حاملہ نہ ہو، وہ عورت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتی اور عرض کرتی: میرا شوہر تجارت کے لئے نکلا ہے اس حال میں کہ میں حاملہ ہوں اور میں نے خواب دیکھنے والے کی طرح خواب دیکھا ہے کہ میرے گھر کا ایک ستون ٹوٹ گیا اور میں نے کانا بچہ جنا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تعبیر بتائی کہ ”بہت اچھا ہے، تمہارا شوہر ان شاء الله صحیح سالم تمہارے پاس لوٹ آئے گا اور تم ایسے بچے کو جنم دو گی جو بہت نیک ہو گا۔“ اس نے کئی بار یہ خواب دیکھا، ہر بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو یہی تعبیر بتاتے اور (اللہ کے حکم سے) اس کا شوہر واپس آتا اور وہ لڑکا جنتی، ایک دن وہ عورت اسی طرح حاضر ہوئی جیسے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا کرتی تھی، اس وقت رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم موجود نہ تھے اور اس نے ویسا ہی خواب دیکھا تھا، میں نے اس سے کہا: اے اللہ کی بندی! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا پوچھنا چاہتی ہو؟ کہا: میں خواب دیکھتی تھی اور آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی تعبیر پوچھتی تھی۔ آپ فرماتے خیر ہے اور جیسی آپ تعبیر بتاتے ویسا ہی ہوتا، میں نے کہا: تو وہ خواب مجھے بھی سناؤ، اس نے کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئیں گے تب ہی سناؤں گی جس طرح پہلے عرض کرتی تھی، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے اس کا پیچھا نہیں چھوڑا یہاں تک کہ وہ اپنا خواب بتانے پر آمادہ ہو گئی (اور مجھے اپنا خواب بتا دیا) میں نے کہا: اگر تمہارا خواب سچا ہے تو تمہارا شوہر مر جائے گا اور فاسق و فاجر بچے کو تم جنم دو گی، وہ عورت بیٹھ کر رونے اور کہنے لگی: میں نے تم کو کیوں اپنا خواب بتا دیا؟ اسی اثنا میں جب وہ رو رہی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے اور فرمایا: ”اے عائشہ! اس عورت کو کیا ہوا، کیوں روتی ہے؟“ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سارا ماجرا کہہ سنایا اور جو تعبیر بتائی وہ بھی بتا دی، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سنو اے عائشہ! جب تم کسی مسلمان کے خواب کی تعبیر بیان کرو تو اچھی بات بتاؤ کیونکہ معبر خواب کی جس طرح تعبیر بتاتا ہے وہ ویسے ہی واقع ہو جاتا ہے“، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: قسم اللہ کی اس کا شوہر مر گیا اور میں سمجھتی ہوں اس نے فاسق و فاجر کو جنم دیا ہو گا۔
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده رجاله ثقات غير أن ابن إسحاق قد عنعن ومع ذلك فقد قال الحافظ في الفتح إسناده حسن (قلت: وكذا قال الأرناؤوطان في تحقيق زاد المعاد: إسناده حسن)، [مكتبه الشامله نمبر: 2209]»
اس روایت کے رواۃ ثقہ ہیں صرف ابن اسحاق کا عنعنہ اس روایت کی علت ہے، اس کو صرف امام دارمی رحمہ اللہ نے ہی روایت کیا ہے اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے [فتح الباري 432/12] میں ان سے یہ واقعہ نقل کیا ہے۔
وضاحت: (تشریح احادیث 2198 سے 2200)
باب رقم دس اور گیارہ میں گذر چکا ہے کہ سمجھ دار عالم سے خواب بیان کرنا چاہیے کیونکہ جیسی تعبیر بتائی جائے ویسے ہی واقعات رونما ہو جاتے ہیں۔
مذکورہ بالا خواب سے اس کی تائید ہوتی ہے، ستون کا ٹوٹنا یا گرنا فوری طور پر ذہن میں موت کی طرف اشارہ کرتا ہے، اسی طرح نقص و عیب والا بچہ ہے اور یہ تعبیر واقع بھی ہوگئی۔
اس لئے تعبیر بتانے میں جلدی نہ کرنی چاہیے۔
اور اچھی بات کہی جائے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بتاتے تھے۔
شیخ ابن باز رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھا خواب کی تعبیر پوچھے جانے پر وہ یہی فرمایا کرتے تھے: «يكون خيرًا يكون خيرًا» یعنی خیر ہوگا خیر ہوگا۔
کبھی کبھار تعبیر بتا دیا کرتے تھے، ایک بار ایک شیخ آئے اور گویا ہوئے کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ ستارے ٹوٹ ٹوٹ کر آسمان سے گر رہے ہیں، فوراً جواب دیا کہ یہ خواب علماء کی موت پر دلالت کرتا ہے، چند دن گزرے تھے کہ مجلس كبار العلماء کے خاص رکن شیخ ابن غصون کا انتقال ہوا، چند ہفتے بعد خود شیخ محترم کا انتقال ہوا، پھر مدینہ منورہ میں شیخ عبدالقادر سندھی، شیخ عمر محمد فلاتہ، پھر شیخ محمد صالح العثیمین اور شیخ ناصرالدین الالبانی، مولانا عبدالرؤوف رحمانی، مولانا ابوالحسن الندوی وغیرہم علمائے کرام اللہ تعالیٰ کو پیارے ہوئے۔
یہ اُمّتِ مسلمہ کے تارے تھے۔
الله تعالیٰ سب کو غریقِ رحمت کرے اور اُمتِ مسلمہ کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے۔
آمین۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده رجاله ثقات غير أن ابن إسحاق قد عنعن ومع ذلك فقد قال الحافظ في الفتح إسناده حسن (قلت: وكذا قال الأرناؤوطان في تحقيق زاد المعاد: إسناده حسن)