Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
10. بَابُ قَوْلِهِ: {إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالأَنْصَابُ وَالأَزْلاَمُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ} :
باب: آیت کی تفسیر ”شراب اور جوا اور بت اور پانسے یہ سب گندی چیزیں ہیں بلکہ یہ شیطانی کام ہیں“۔
حدیث نمبر: 4616
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ، قَالَ: حَدَّثَنِي نَافِعٌ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" نَزَلَ تَحْرِيمُ الْخَمْرِ، وَإِنَّ فِي الْمَدِينَةِ يَوْمَئِذٍ لَخَمْسَةَ أَشْرِبَةٍ، مَا فِيهَا شَرَابُ الْعِنَبِ".
ہم سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم کو محمد بن بشر نے خبر دی، ان سے عبدالعزیز بن عمر بن عبدالعزیز نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے نافع نے بیان کیا اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب شراب کی حرمت نازل ہوئی تو مدینہ میں اس وقت پانچ قسم کی شراب استعمال ہوتی تھی۔ لیکن انگوری شراب کا استعمال نہیں ہوتا تھا (بہرحال وہ بھی حرام قرار پائی)۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4616 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4616  
حدیث حاشیہ:

انگور کی شراب بالکل معدوم نہ تھی بلکہ اس کا استعمال بہت کم ہوتا تھا چنانچہ حضرت عمر ؓ ایک حدیث میں انگور کی شراب کا بھی ذکر آتا ہے۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4619)
بہر حال ہر وہ شراب حرام ہے جس کے پینے سے عقل پر پردہ پڑ جائے اور انسان کو نشہ آجائے چنانچہ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔
'' (صحیح مسلم، الأشربة، حدیث: 5211۔
(2001)
ایک روایت میں ہے کہ جس چیز کی زیادہ مقدار پینے سے نشہ آئے اس کی تھوڑی سی مقدار بھی حرام ہے۔
(جامع الترمذي، الأشربة، حدیث: 1865)

شراب کے متعلق قرآن کریم میں چار مراحل بیان ہوئے ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
۔
حرمت سے پہلے اس کی اباحت کا مرحلہ ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
"اور کھجور اور انگور کے درختوں کے پھلوں سے تم شراب بنا لیتے ہو اور عمدہ روزی بھی۔
'' (النحل16۔
67)

یہ آیت اس وقت اتری جب شراب نہیں تھی، اس لیے حلال چیزوں کے ساتھ اس کا بھی ذکرکیا گیا ہےلیکن اسلوب سے واضح ہوتا ہے کہ شراب رزق حسن نہیں ہے کیونکہ اسے الگ بیان کیا گیا ہے۔
اس کی حرمت کو اشارے سے بیان کیا گیا کہ اس کا نقصان فوائد سے زیادہ ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"وہ آپ سے شراب اور جوئے کے متعلق پوچھتے ہیں۔
آپ کہہ دیں کہ ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے لیے کچھ فائدے بھی ہیں لیکن ان کا گناہ ان کے نفع کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔
'' (البقرة: 219/2)
اس حکم میں شراب سے نفرت دلانے پر اکتفا کیا گیا ہے۔
۔
اس کے بعد نشے کی حالت میں نماز ادا کرنے کی ممانعت کا حکم نازل ہوا ارشاد باری تعالیٰ ہے:
''اے ایمان والو! نشے کی حالت میں نماز کے قریب تک نہ جاؤ یہاں تک کہ تمھیں یہ معلوم ہو سکے کہ تم نماز میں کیا کہہ رہے ہو۔
'' (النساء: 43/4)
یہ آیت حرمت شراب کے تدریجی احکام کی دوسری کڑی ہے اس کے بعد فیصلہ کن حکم نازل ہوا۔
۔
امام بخاری ؒ کی پیش کردہ آیت میں شراب کی حرمت کو فیصلہ کن انداز میں بیان کیا گیا اور اسے "رجس اور شیطانی عمل قرار دیا گیا۔
" 3۔
ان مراحل کی تائید ایک حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ حضرت عمر ؓ نے عرض کی:
اے اللہ! شراب کے متعلق شافی بیان نازل فرما تو اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ کی آیت 291۔
نازل فرمائی، حضرت عمر ؓ کو بلا کر اس کی تلاوت کی گئی تو آپ نے عرض کی:
اے اللہ! اس کے متعلق بیان شافی نازل فرما۔
پھر سورہ نساء کی آیت: 43 نازل ہوئی۔
اس کے بعد حضرت عمرؓ کو بلا کر اس کی تلاوت کی گئی تو آپ نے پھر عرض کی:
اے اللہ! اس کےمتعلق فیصلہ کن حکم نازل فرما تو سورہ مائدہ کی آیت: 91 نازل ہوئی جس کے آخر میں ہے کہ تم اس سے باز نہیں آتے ہو۔
جب حضرت عمر ؓ کے سامنے اسے تلاوت کیا گیا تو انھوں نے کہا:
اے اللہ! ہم باز آ گئے۔
اللہ!ہم باز آگئے۔
(جامع الترمذي، التفسیر، حدیث: 3049)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4616