سنن دارمي
من كتاب الاطعمة
کھانا کھانے کے آداب
28. باب في الْوَلِيمَةِ:
ولیمہ کا بیان
حدیث نمبر: 2105
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ، قَالَ: كَانَ رَجُلٌ يُقَالُ لَهُ أَبُو شُعَيْبٍ، وَكَانَ لَهُ غُلَامٌ لَحَّامٌ، فَقَالَ: اصْنَعْ لِي طَعَامًا أَدْعُو رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَامِسَ خَمْسَةٍ. قَالَ: فَدَعَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَامِسَ خَمْسَةٍ، فَتَبِعَهُمْ رَجُلٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"إِنَّكَ دَعَوْتَنَا خَامِسَ خَمْسَةٍ، وَهَذَا رَجُلٌ قَدْ تَبِعَنِي، فَإِنْ شِئْتَ أَذِنْتَ لَهُ، وَإِنْ شِئْتَ تَرَكْتَهُ". قَالَ: فَأَذِنَ لَهُ.
سیدنا ابومسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: ایک صحابی نے جن کی کنیت ابوشعيب تھی اپنے ایک غلام سے کہا جو قصاب تھا کہ میرے لئے اتنا کھانا تیار کر دو جو پانچ اشخاص کے لئے کافی ہو، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کرنا چاہتا ہوں، چنانچہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور چار ساتھیوں کو ساتھ آنے کی دعوت دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک اور صحابی بھی لگ گئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے چار آدمی کے ساتھ ہماری دعوت کی تھی اور یہ صاحب بھی ہمارے ساتھ لگے چلے آئے ہیں یا تو ان کو بھی (کھانے کی) اجازت دے دو اور چاہو تو واپس کر سکتے ہو؟“ راوی نے کہا: انہوں نے اسے بھی (داخل ہونے اور کھانے کی) اجازت دیدی۔
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2112]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5434]، [مسلم 2037]، [ابن حبان 5300]، [ترمذي 1099]
وضاحت: (تشریح حدیث 2104)
یہ صحابی جو ساتھی بن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلے آئے تھے ان کا نام معلوم نہ ہو سکا۔
اس حدیث میں سیدنا ابوشعيب رضی اللہ عنہ نے تعداد محدود کر دی تھی اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زائد شخص کے لئے اجازت طلب کی، یہ بھی ہمارے نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم کا حسن اخلاق تھا کہ زبردستی کسی پر بوجھ نہ ڈالتے تھے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کو «باب ما قيل فى اللحام والجزار» میں ذکر کیا ہے اور استدلال کیا ہے کہ قصاب (گوشت کاٹنے اور بیچنے) کا پیشہ جائز ہے، نیز اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مہمان کے ساتھ اگر کوئی شخص طفیلی چلا آوے تو اجازت طلب کی جائے اور صاحبِ خانہ کو اختیار ہے کہ کوئی ضرر نہ ہو تو اس کو اجازت دے یا رد کر دے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح