Note: Copy Text and to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الصَّلَاةِ
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
57. بَابُ نَوْمِ الْمَرْأَةِ فِي الْمَسْجِدِ:
باب: عورت کا مسجد میں سونا۔
حدیث نمبر: 439
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ،" أَنَّ وَلِيدَةً كَانَتْ سَوْدَاءَ لِحَيٍّ مِنْ الْعَرَبِ فَأَعْتَقُوهَا، فَكَانَتْ مَعَهُمْ، قَالَتْ: فَخَرَجَتْ صَبِيَّةٌ لَهُمْ عَلَيْهَا وِشَاحٌ أَحْمَرُ مِنْ سُيُورٍ، قَالَتْ: فَوَضَعَتْهُ أَوْ وَقَعَ مِنْهَا، فَمَرَّتْ بِهِ حُدَيَّاةٌ وَهُوَ مُلْقًى، فَحَسِبَتْهُ لَحْمًا فَخَطِفَتْهُ، قَالَتْ: فَالْتَمَسُوهُ فَلَمْ يَجِدُوهُ، قَالَتْ: فَاتَّهَمُونِي بِهِ، قَالَتْ: فَطَفِقُوا يُفَتِّشُونَ حَتَّى فَتَّشُوا قُبُلَهَا، قَالَتْ: وَاللَّهِ إِنِّي لَقَائِمَةٌ مَعَهُمْ إِذْ مَرَّتِ الْحُدَيَّاةُ فَأَلْقَتْهُ، قَالَتْ: فَوَقَعَ بَيْنَهُمْ، قَالَتْ: فَقُلْتُ: هَذَا الَّذِي اتَّهَمْتُمُونِي بِهِ، زَعَمْتُمْ وَأَنَا مِنْهُ بَرِيئَةٌ وَهُوَ ذَا هُوَ، قَالَتْ: فَجَاءَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَسْلَمَتْ، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَكَانَ لَهَا خِبَاءٌ فِي الْمَسْجِدِ أَوْ حِفْشٌ، قَالَتْ: فَكَانَتْ تَأْتِينِي فَتَحَدَّثُ عِنْدِي، قَالَتْ: فَلَا تَجْلِسُ عِنْدِي مَجْلِسًا إِلَّا قَالَتْ: وَيَوْمَ الْوِشَاحِ مِنْ أَعَاجِيبِ رَبِّنَا أَلَا إِنَّهُ مِنْ بَلْدَةِ الْكُفْرِ أَنْجَانِي قَالَتْ عَائِشَةُ: فَقُلْتُ لَهَا: مَا شَأْنُكِ لَا تَقْعُدِينَ مَعِي مَقْعَدًا إِلَّا قُلْتِ هَذَا؟ قَالَتْ: فَحَدَّثَتْنِي بِهَذَا الْحَدِيثِ".
ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے ہشام کے واسطہ سے، انہوں نے اپنے باپ سے، انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ عرب کے کسی قبیلہ کی ایک کالی لونڈی تھی۔ انہوں نے اسے آزاد کر دیا تھا اور وہ انہیں کے ساتھ رہتی تھی۔ اس نے بیان کیا کہ ایک دفعہ ان کی ایک لڑکی (جو دلہن تھی) نہانے کو نکلی، اس کا کمر بند سرخ تسموں کا تھا اس نے وہ کمر بند اتار کر رکھ دیا یا اس کے بدن سے گر گیا۔ پھر اس طرف سے ایک چیل گزری جہاں کمر بند پڑا تھا۔ چیل اسے (سرخ رنگ کی وجہ سے) گوشت سمجھ کر جھپٹ لے گئی۔ بعد میں قبیلہ والوں نے اسے بہت تلاش کیا، لیکن کہیں نہ ملا۔ ان لوگوں نے اس کی تہمت مجھ پر لگا دی اور میری تلاشی لینی شروع کر دی، یہاں تک کہ انہوں نے اس کی شرمگاہ تک کی تلاشی لی۔ اس نے بیان کیا کہ اللہ کی قسم میں ان کے ساتھ اسی حالت میں کھڑی تھی کہ وہی چیل آئی اور اس نے ان کا وہ کمر بند گرا دیا۔ وہ ان کے سامنے ہی گرا۔ میں نے (اسے دیکھ کر) کہا یہی تو تھا جس کی تم مجھ پر تہمت لگاتے تھے۔ تم لوگوں نے مجھ پر اس کا الزام لگایا تھا حالانکہ میں اس سے پاک تھی۔ یہی تو ہے وہ کمر بند! اس (لونڈی) نے کہا کہ اس کے بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اسلام لائی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ اس کے لیے مسجد نبوی میں ایک بڑا خیمہ لگا دیا گیا۔ (یا یہ کہا کہ) چھوٹا سا خیمہ لگا دیا گیا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ وہ لونڈی میرے پاس آتی اور مجھ سے باتیں کیا کرتی تھی۔ جب بھی وہ میرے پاس آتی تو یہ ضرور کہتی کہ کمر بند کا دن ہمارے رب کی عجیب نشانیوں میں سے ہے۔ اسی نے مجھے کفر کے ملک سے نجات دی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے اس سے کہا، آخر بات کیا ہے؟ جب بھی تم میرے پاس بیٹھتی ہو تو یہ بات ضرور کہتی ہو۔ آپ نے بیان کیا کہ پھر اس نے مجھے یہ قصہ سنایا۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 439 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:439  
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒ نے یکے بعد دیگرے دوباب قائم کیے ہیں
مسجد میں عورت کا سونا
مسجدمیں مرد کا سونا۔
اس سے مقصود جواز کا بیان ہے، جیسا کہ روایات سے معلوم ہوتا ہے، لیکن امام بخاری ؒ نےعورت کے سونے کومقدم کیا، کیونکہ عورت محل فتنہ ہے، اس لیے بعض آئمہ کرام کے ہاں مطلق طور پر عورت کا مسجد میں سونا ممنوع ہے، اگرچہ وہ بوڑھی ہی کیوں نہ ہو، جیسا کہ امام مالک ؒ سے منقول ہے اس وہم کے پیش نظر اسے مقدم کر کے جواز کو واضح فرمایا۔
اور یہ اجازت کسی ہنگامی ضرورت کی وجہ سے ہے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ فرماتے ہیں:
عورت کا مسجد میں سونا جائز ہے، اگرچہ اسے حیض آنے کا احتمال ہو، لیکن جب اسے حیض آجائے تو مسجد سے باہر چلی جائے۔
اس سے پہلے اس کا مسجد میں سونا حرام نہیں۔
(شرح تراجم بخاری:
)


حافظ ابن حجرؒ نے اس حدیث سے مندرجہ ذیل مسائل کا استنباط کیا ہے:
مسلمانوں میں سے جس مرد یا عورت کا کوئی ٹھکانا نہ ہو وہ مسجد میں پڑاؤ کر سکتا ہے، بشرطیکہ وہاں کوئی خوف اور خطرہ نہ ہو
مسجد میں خیمہ یا سایہ کرنے کے لیے کسی اور چیز کا انتظام کیا جا سکتا ہے۔
جس ملک میں کسی کو اخلاقی یا دینی گراوٹ کا اندیشہ ہو وہاں سے دوسرے ملک میں منتقل ہونا جائز ہے۔
دارالکفر سے ہجرت کرنے کی فضیلت کا پتہ چلتا ہے۔
مظلوم کی دعا ضرور قبول ہوتی ہے، خواہ وہ کافر ہی کیوں نہ ہو۔
(فتح الباری: 692/1)

واضح رہے کہ اس نو مسلمہ لونڈی کا خیمہ مسجد نبوی کے شمالی حصے میں لگوایا گیا تھا جس کا ایک حصہ اصحاب صفہ کے لیے مخصوص تھا جو تحویل قبلہ کے بعد مسجد کے صحن کے طور پر استعمال ہوتا تھا زیادہ سے زیادہ اس قسم کے واقعات کو رخصت کے درجے میں رکھا جاسکتا ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 439   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 204  
´مساجد کا بیان`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہی سے مروی ہے کہ ایک سیاہ رنگ لڑکی کا خیمہ مسجد میں تھا وہ میرے پاس باتیں کرنے کے لئے آیا کرتی تھی۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/حدیث: 204]
204 لغوی تشریح:
«وَلِيدَةً» ‏‏‏‏ لونڈی۔
«خِبَاءٌ» خاء کے نیچے کسرہ اور باء مخفف ہے۔ خیمہ کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔
«فَتَحَدَّثُ» ‏‏‏‏ اصل میں «تَتَحَدَّثُ» تھا۔ «تَتَكَلَّمُ» ‏‏‏‏ کے معنی میں ہے یعنی بات چیت کرنے، گفتگو کرنے کے لیے آتی تھی۔ حدیث سے ثابت ہوا کہ عورت بھی مسجد میں رات بسر کر سکتی ہے بشرطیکہ کسی فتنہ و فساد کا خطرہ نہ ہو اور اس کے لیے مسجد میں خیمہ بھی قائم کیا جا سکتا ہے۔ یہ ایک لمبی حدیث کا ٹکڑا ہے۔ پوری حدیث صحیح بخاری میں ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 204