سنن دارمي
من كتاب الاطعمة
کھانا کھانے کے آداب
11. باب في الضِّيَافَةِ:
مہمان نوازی کا بیان
حدیث نمبر: 2076
أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي الْجُودِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُهَاجِرِ، عَنْ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي كَرِبَ: أَبِي كَرِيمَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَيُّمَا مُسْلِمٍ ضَافَ قَوْمًا، فَأَصْبَحَ الضَّيْفُ مَحْرُومًا، فَإِنَّ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ نَصْرَهُ حَتَّى يَأْخُذَ لَهُ بِقِرَى لَيْلَتِهِ مِنْ زَرْعِهِ وَمَالِهِ".
سیدنا ابوکریمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص بھی کسی قوم کا مہمان بنا (یعنی ان کے پاس مہمان بن کر آیا) اور صبح تک ویسے ہی بے نصیب رہا (یعنی کسی نے اس کی مہمان داری نہ کی) تو اس کی مدد کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے یہاں تک کہ وہ مہمان اپنی مہمانی اس قوم کی زراعت اور مال میں سے لے سکتا ہے۔“
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 2080]»
اس روایت کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 3751]، [ابن ماجه 3677]، [أحمد 131/4، 133]، [مشكل الآثار للطحاوي 40/4]، [دارقطني 287/4]، [ابن حبان 5288]، اور [بخاري 3461] و [مسلم 1727] میں بھی اس کا شاہد موجود ہے۔
وضاحت: (تشریح حدیث 2075)
یعنی جن کا مہمان ہو ان کے مال و زر میں سے اس قدر بلا اجازت لے سکتا ہے جس میں اس کی آسودگی ہو، یہ حدیث ابتدائے اسلام کی ہے جب مہمانی واجب تھی، لیکن اب سنّتِ مؤکدہ اور اخلاقِ حسنہ کی نشانی ہے۔
اور مہمانی نہ کرنا بدخلقی، بے مروّتی اور باعثِ شقاوت ہے۔
نیز وجوب صرف پہلی رات کے لئے ہے کیونکہ رات کو مسافر کو نہ کھانا مل سکتا ہے نہ بازار معلوم ہوتا ہے تو صاحبِ خانہ پر اس کے کھانے پینے کا سامان کر دینا واجب ہے، البتہ دوسرے دن صبح کو اس پر مہمانی کرنا واجب نہیں کیونکہ مہمان دن کو سب سامان کر سکتا ہے، یہ وجوب علماء کے ایک گروہ کے نزدیک اب بھی باقی ہے اور جمہور کہتے ہیں کہ وجوب منسوخ ہو گیا لیکن سنّت ہونا اب بھی باقی ہے، تو ایک دن رات مہمانی کرنا سنّتِ مؤکدہ یعنی ضروری ہے اور تین دن مستحب ہے، اور تین دن بعد پھر مہمانی نہیں، اب مہمان کو لازم ہے کہ چل دیوے یا اپنے کھانے پینے کا اہتمام الگ کر لیوے، میزبان پر بوجھ نہ ڈالے (وحیدی بتصرف)۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن