سنن دارمي
من كتاب المناسك
حج اور عمرہ کے بیان میں
69. باب في رُكُوبِ الْبَدَنَةِ:
قربانی کے اونٹ پر سوار ہونے کا بیان
حدیث نمبر: 1951
أَخْبَرَنَا أَبُو النَّضْرِ هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: قَتَادَةُ أَخْبَرَنِي، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسًا يُحَدِّثُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ انْتَهَى إِلَى رَجُلٍ يَسُوقُ بَدَنَتَهُ، قَالَ: "ارْكَبْهَا". قَالَ: إِنَّهَا بَدَنَةٌ. قَالَ:"ارْكَبْهَا". قَالَ: إِنَّهَا بَدَنَةٌ، قَالَ:"ارْكَبْهَا وَيْحَكَ!".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک شخص کے پاس پہنچے جو قربانی کا جانور لئے جا رہا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس پر سوار ہو جاؤ“، اس نے کہا: یہ تو قربانی کا جانور ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سوار ہو جا“، اس نے پھر عرض کیا کہ: یہ تو قربانی کا جانور ہے؟ فرمایا: ”ارے کم بخت سوار ہو جا۔“ ( «ديحك» یا «ويلك» سے مراد صرف تنبیہ اور تاکید ہے بددعا نہیں)۔
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1955]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1689، 1690]، [مسلم 1323]، [ترمذي 911]، [ابن ماجه 3104]، [أبويعلی 2763]
وضاحت: (تشریح حدیث 1950)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بار بار سواری کے لئے حکم فرمانے کا مقصد یہ تھا کہ زمانۂ جاہلیت کے عقیدے کا ابطال کیا جائے اور معلوم ہو جائے کہ قربانی کے اونٹ پر سوار ہونا اس کے شعائر اسلام ہونے کے منافی نہیں۔
زمانۂ جاہلیت میں عرب لوگ سائبہ بحیرہ وغیرہ جو جانور مذہبی نذر و نیاز کے طور پر چھوڑ دیتے تھے ان پر سوار ہونا معیوب جانا کرتے تھے، قربانی کے جانوروں کے متعلق بھی جو کعبہ میں لے جائے جائیں ان کا ایسا ہی تصور تھا، اسلام نے اس تصور کو ختم کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باصرار حکم دیا کہ اس پر سواری کرو تاکہ راستے کی تھکن سے بچ سکو، قربانی کے جانور ہونے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اسے معطل کر کے چھوڑ دیا جائے، اسلام اسی لئے دینِ فطرت ہے کہ اس نے قدم قدم پر انسانی ضروریات کو مدِ نظر رکھا ہے، اور ہر جگہ عین ضروریاتِ انسانی کے تحت احکامات صادر کئے ہیں۔
(راز) «الحمد للّٰه الذى هدانا لهذا وما كنا لنتهدي لو لا أن هدانا اللّٰه.»
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح