Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
25. بَابُ: {إِنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرَكِ الأَسْفَلِ} :
باب: آیت کی تفسیر ”بلا شک منافقین دوزخ کے سب سے نچلے درجہ میں ہوں گے“۔
حدیث نمبر: 4602
حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، قَالَ: حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ، عَنْ الْأَسْوَدِ، قَالَ: كُنَّا فِي حَلْقَةِ عَبْدِ اللَّهِ، فَجَاءَ حُذَيْفَةُ، حَتَّى قَامَ عَلَيْنَا فَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ:" لَقَدْ أُنْزِلَ النِّفَاقُ عَلَى قَوْمٍ خَيْرٍ مِنْكُمْ"، قَالَ الْأَسْوَدُ:" سُبْحَانَ اللَّهِ، إِنَّ اللَّهَ يَقُولُ: إِنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ سورة النساء آية 145، فَتَبَسَّمَ عَبْدُ اللَّهِ، وَجَلَسَ حُذَيْفَةُ فِي نَاحِيَةِ الْمَسْجِدِ، فَقَامَ عَبْدُ اللَّهِ، فَتَفَرَّقَ أَصْحَابُهُ فَرَمَانِي بِالْحَصَا، فَأَتَيْتُهُ، فَقَالَ حُذَيْفَةُ:" عَجِبْتُ مِنْ ضَحِكِهِ، وَقَدْ عَرَفَ مَا قُلْتُ، لَقَدْ أُنْزِلَ النِّفَاقُ عَلَى قَوْمٍ كَانُوا خَيْرًا مِنْكُمْ، ثُمَّ تَابُوا فَتَابَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ".
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا ان سے ان کے باپ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابراہیم نے بیان کیا، ان سے اسود نے بیان کیا کہ ہم عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے حلقہ درس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ حذیفہ رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور ہمارے پاس کھڑے ہو کر سلام کیا۔ پھر کہا نفاق میں وہ جماعت مبتلا ہو گئی جو تم سے بہتر تھی۔ اس پر اسود بولے، سبحان اللہ، اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے «إن المنافقين في الدرك الأسفل من النار‏» کہ منافق دوزخ کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ مسکرانے لگے اور حذیفہ رضی اللہ عنہ مسجد کے کونے میں جا کر بیٹھ گئے۔ اس کے بعد عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اٹھ گئے اور آپ کے شاگرد بھی اِدھر اُدھر چلے گئے۔ پھر حذیفہ رضی اللہ عنہ نے مجھ پر کنکری پھینکی (یعنی مجھ کو بلایا) میں حاضر ہو گیا تو کہا کہ مجھے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی ہنسی پر حیرت ہوئی حالانکہ جو کچھ میں نے کہا تھا اسے وہ خوب سمجھتے تھے۔ یقیناً نفاق میں ایک جماعت کو مبتلا کیا گیا تھا جو تم سے بہتر تھی، اس لیے کہ پھر انہوں نے توبہ کر لی اور اللہ نے بھی ان کی توبہ قبول کر لی۔

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4602 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4602  
حدیث حاشیہ:
اسود کو یہ تعجب ہوا کہ بھلا منافق لوگ ہم مسلمانوں سے کیونکر بہتر ہوسکتے ہیں۔
حذیفہ ؓ کا مطلب یہ تھا کہ وہ لوگ تم سے بہتر تھے یعنی صحابہ ؓ کے قرن میں تھے۔
تم تابعین کے قرن میں ہو۔
وہ نفاق کی وجہ سے خراب ہو گئے، دین سے پھر گئے، مگر وہ لوگ جنہوں نے توبہ کی وہ عند اللہ مقبول ہو گئے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4602   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4602  
حدیث حاشیہ:

حضرت حذیفہ ؓ کا مقصد یہ تھا کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں کچھ لوگ اسلام کا اقرار کرنے کے بعد مرتد ہوگئے اور مرض نفاق کا شکار ہوئے اور وہ بہتر لوگ لوگ تھے کیونکہ وہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے دور میں تھے اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا طبقہ تابعین کے طبقے سے بہتر ہے لیکن ان کے مرتد ہونے اور منافق بن جانے کی وجہ سے ان کے بہتر ہونے کا وصف جاتا رہا۔
ان میں سے جب کچھ تائب ہوئے تو ان کے بہتر ہونے کا وصف واپس آگیا۔

حضرت حذیفہ ؓ ان کومتنبہ کرنا چاہتے تھے کہ تم لوگ خیر القرون نہیں ہو، تمھیں بطریق اولیٰ ڈرنا چاہیے کیونکہ اعمال کا دار و مدار خاتمے پر ہے۔
کہیں ایسا نہ ہو کہ تم اپنے اعمال پر اعتماد کرکے بیٹھ جاؤ۔
اس طرح ایمان کے رخصت ہوجانے کا بھی اندیشہ ہے۔
یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے کوئی بھی مرتد نہیں ہوا، البتہ کچھ اعراب (بدو)
دین سے ضرور پھر گئے تھے۔

مسیلمہ کذاب کے ساتھ ملنے والے اعراب بھی اس قماش کے تھے یا کچھ یہودی کسی سازش کے تحت بظاہر مسلمان ہوئے اور پھر مرتد ہوگئے جیسا کہ ان میں ایک کاتب وحی یہودی تھا جومسلمان ہونے کے بعد مرتد ہوا اور زمین نے اسے مرنے کے بعد قبول نہ کیا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4602