Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
24. بَابُ: {وَإِنِ امْرَأَةٌ خَافَتْ مِنْ بَعْلِهَا نُشُوزًا أَوْ إِعْرَاضًا} :
باب: آیت کی تفسیر ”اور اگر کسی عورت کو اپنے شوہر کی طرف سے ظلم زیادتی یا بے رغبتی کا خوف ہو تو ان کو باہمی صلح کر لینے میں کوئی گناہ نہیں کیونکہ صلح بہتر ہے“۔
حدیث نمبر: 4601
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: وَإِنِ امْرَأَةٌ خَافَتْ مِنْ بَعْلِهَا نُشُوزًا أَوْ إِعْرَاضًا سورة النساء آية 128، قَالَتْ:" الرَّجُلُ تَكُونُ عِنْدَهُ الْمَرْأَةُ لَيْسَ بِمُسْتَكْثِرٍ مِنْهَا، يُرِيدُ أَنْ يُفَارِقَهَا، فَتَقُولُ: أَجْعَلُكَ مِنْ شَأْنِي فِي حِلٍّ، فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ فِي ذَلِكَ".
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا ہم کو ہشام بن عروہ نے خبر دی، انہیں ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے آیت «وإن امرأة خافت من بعلها نشوزا أو إعراضا‏‏‏.‏» اور کسی عورت کو اپنے شوہر کی طرف سے زیادتی یا بے رغبتی کا خوف ہو کے متعلق کہا کہ ایسا مرد جس کے ساتھ اس کی بیوی رہتی ہے، لیکن شوہر کو اس کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں، بلکہ وہ اسے جدا کر دینا چاہتا ہے، اس پر عورت کہتی ہے کہ میں اپنی باری اور اپنا (نان نفقہ) معاف کر دیتی ہوں (تم مجھے طلاق نہ دو) تو ایسی صورت کے متعلق یہ آیت اسی باب میں اتری۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4601 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4601  
حدیث حاشیہ:
جورو مرد اگر صلح کر کے کوئی بات ٹھہرا لیں تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
مثلا جور و اپنی باری معاف کردے یا اور کوئی بات پڑ جائے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4601   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4601  
حدیث حاشیہ:

اس آیت کی عملی تفسیر درج ذیل واقعے سے ہوتی ہے۔
حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں:
حضرت سودہ ؓ کو محسوس ہوا کہ رسول اللہ ﷺ اسے طلاق دینے کا ارادہ رکھتے ہیں تو انھوں نے آپ سے عرض کی:
اللہ کے رسول ﷺ! آپ مجھے طلاق نہ دیں بلکہ اپنے پاس ہی رکھیں اور میں اپنی باری حضرت عائشہ ؓ کو دے دیتی ہوں، چنانچہ رسول اللہ ﷺایساہی کیا۔
اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔
گویا میاں بیوی جس شرط پر صلح کرلیں وہ جائز ہے۔
(النساء: 128/4)

بہرحال اگر بیوی اپنی باری اور دیگر حقوق سے دستبردار ہو جائے تو وہ اس کے حقوق ختم ہوجائیں گے، چنانچہ ایک دوسری روایت میں مذید وضاحت ہے کہ عورت اپنے خاوند کی بے رخی کو دیکھ کرکہتی ہے:
مجھے اپنے پاس ہی رکھو اور طلاق نہ دو، کسی اور سے شادی بھی کرلو، میرے نان ونفقہ سے بھی آپ بری الذمہ ہیں اورمیری باری کے موقع پر میرے ہاں شب باشی بھی نہ کریں۔
(جامع الترمذي، تفسیر القرآن، حدیث: 3040)
اس کے باوجود خاوند کو چاہیے کہ وہ کسی صورت میں بھی عدل و انصاف کا دامن اپنے ہاتھ سے نہ چھوڑے۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4601