سنن دارمي
من كتاب المناسك
حج اور عمرہ کے بیان میں
25. باب في اسْتِلاَمِ الْحَجَرِ:
حجر اسود کے چھونے یا بوسہ دینے کا بیان
حدیث نمبر: 1876
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: "مَا تَرَكْتُ اسْتِلَامَ هَذَيْنِ الرُّكْنَيْنِ فِي شِدَّةٍ وَلَا رَخَاءٍ مُنْذُ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَلِمُهُمَا". قُلْتُ لِنَافِعٍ: أَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يَمْشِي بَيْنَ الرُّكْنَيْنِ؟ قَالَ: إِنَّمَا كَانَ يَمْشِي لِيَكُونَ أَيْسَرَ لِاسْتِلَامِهِ.
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: میں نے جب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان دونوں رکن (حجر اسود اور رکن یمانی) کو بوسہ دیتے اور چھوتے دیکھا ہے، شدت و نرمی کے حالات میں کبھی نہیں چھوڑا، عبید اللہ نے کہا: میں نے نافع سے پوچھا: کیا سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما ان دونوں رکنوں کے درمیان چلتے تھے؟ نافع نے کہا: وہ چلتے تھے تاکہ اس کے استلام میں سہولت ہو۔
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1880]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1606]، [مسلم 1268]، [نسائي 2952]، [أبويعلی 5473]، [ابن حبان 3827]، [الحميدي 666]
وضاحت: (تشریح حدیث 1875)
طواف میں حجرِ اسود کا بوسہ لینا یا چھونا سنّت ہے اور رکنِ یمانی کا صرف چھونا سنّت ہے بوسہ دینا نہیں، اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سنّتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اتنے شیدائی تھے کہ سنّت سے سرمو انحراف نہ کرتے تھے، جیسا کہ حدیث میں مذکورہ ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح