صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
22. بَابُ: {وَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِنْ كَانَ بِكُمْ أَذًى مِنْ مَطَرٍ أَوْ كُنْتُمْ مَرْضَى أَنْ تَضَعُوا أَسْلِحَتَكُمْ} :
باب: آیت کی تفسیر ”اور تمہارے لیے اس میں کوئی حرج نہیں کہ اگر تمہیں بارش سے تکلیف ہو رہی ہو یا تم بیمار ہو تو اپنے ہتھیار اتار کر رکھ دو“۔
حدیث نمبر: 4599
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ أَبُو الْحَسَنِ، أَخْبَرَنَا حَجَّاجٌ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يَعْلَى، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: إِنْ كَانَ بِكُمْ أَذًى مِنْ مَطَرٍ أَوْ كُنْتُمْ مَرْضَى سورة النساء آية 102، قَالَ:" عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ، وَكَانَ جَرِيحًا".
ہم سے ابوالحسن محمد بن مقاتل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو حجاج بن محمد اعور نے خبر دی، ان سے ابن جریج نے بیان کیا، انہیں یعلیٰ بن مسلم نے خبر دی، انہیں سعید بن جبیر نے اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت «إن كان بكم أذى من مطر أو كنتم مرضى» کے سلسلے میں بتلایا کہ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ زخمی ہو گئے تھے ان سے متعلق یہ آیت نازل ہوئی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4599 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4599
حدیث حاشیہ:
آیت میں مجاہدین کو تاکید کی گئی ہے کہ وہ کسی وقت بھی غفلت زدہ نہ ہوں۔
ہر وقت ہتھیار بند ہو کر رہیں ہاں کسی وقت کوئی تکلیف لاحق ہو جائے تو اس حالت میں ہتھیاروں کو اتار کر رکھ دینا جائز ہے۔
یہ صرف قرآنی ہدایت ہی نہیں بلکہ اقوام عالم کی فوجوں کا ایک بے حد ضروری ضابطہ ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4599
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4599
حدیث حاشیہ:
1۔
جنگی حالات میں یہ حکم ہے کہ تم کفار کا مقابلہ کرنے کے لیے حسب استطاعت قوت کی تیاری رکھو۔
حضرت عبدالرحمان بن عوف ؓ کا بیماری کی وجہ سے ہتھیار اتار دینا بظاہر اس آیت کےخلاف تھا، اس لیے حکم نازل ہوا کہ بیماری کی وجہ سے ہتھیار اتار دینے کی اجازت ہے لیکن اس اجازت کے ساتھ یہ بھی حکم ہے کہ دشمن سے غافل نہ رہو بلکہ اس سے بچاؤ کے لیے کوئی نہ کوئی تدبیر ضرور کر، ایسا نہ ہو کہ تم غافل ہو جاؤ اور دشمن اچانک تم پر حملہ کردے، اس لیے مورچوں کی حفاظت کرنا، لڑائی سے پہلے سامان جنگ تیار رکھنا اور دشمن کی نقل وحرکت سے باخبررہنا سب اس حکم میں شامل ہے۔
2۔
رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں جنگ کا اسلحہ ہرمجاہد کا انفرادی طور پرہوتا تھا مگر آج کل حکومت اسلحہ فراہم کرتی ہے، لہذا اسلحہ تیار کرنے والی فیکٹریوں اور اسلحے کے ذخائر کی حفاظت اس حکم میں شامل ہے۔
الغرض ملک وملت کا تحفظ، افراد فوج کی حفاظت کے لیے تدابیر، آلات جنگ کا تحفظ اور لڑائی کے منصوبوں کو صیغہ راز میں رکھنا یہ تمام باتیں ﴿خُذُوا حِذْرَكُمْ﴾ میں داخل ہیں، اس دور میں جنگ کے دشمن کی کوشش ہوتی ہے کہ سب سے پہلے اسلحہ کے محفوظ ذخائر اور اسلحہ ساز فیکٹریوں کو نشانہ بنائے۔
مسلمانوں کو اس آیت کے ذریعے سے ان تمام باتوں کی طرف متوجہ کیا گیا ہے۔
3۔
بہرحال مجاہدین کو تاکید کی گئی ہے کہ وہ کسی وقت بھی دشمن سے غافل نہ رہیں اور ہر وقت ہتھیار بند رہیں۔
ہاں، اگرکسی وقت کوئی مجبوری ہوتو ایسے حالات میں ہتھیار اتارے جاسکتے ہیں لیکن اپنے بچاؤ سے پھر بھی غافل نہیں رہنا چاہیے۔
یہ صرف قرآنی ہدایت ہی نہیں بلکہ اقوام عالم کی افواج کے لیے بھی یہی ضابطہ ہے۔
(النساء: 128/4)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4599