سنن دارمي
من كتاب الصوم
روزے کے مسائل
19. باب في الذي يَقَعُ عَلَى امْرَأَتِهِ في شَهْرِ رَمَضَانَ نَهَاراً:
جو شخص رمضان میں دن کے وقت اپنی بیوی سے جماع کر لے اس کا بیان
حدیث نمبر: 1756
أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ , حَدَّثَنَا يَحْيَى يَعْنِي بْنَ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيَّ , أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الْقَاسِمِ أَخْبَرَهُ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَيْرِ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبَّادَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، أَنَّهُ سَمِعَ عَائِشَةَ، تَقُولُ: إِنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّهُ احْتَرَقَ، فَسَأَلَهُ: مَا لَهُ؟ فَقَالَ: أَصَابَ أَهْلَهُ فِي رَمَضَانَ. فَأُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِكْتَلٍ يُدْعَى الْعَرَقَ فِيهِ تَمْرٌ، فَقَالَ:"أَيْنَ الْمُحْتَرِقُ؟"فَقَامَ الرَّجُلُ، فَقَالَ:"تَصَدَّقْ بِهَذَا".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میں تو (جہنم کی آگ میں) جل گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: ”کیا ماجرا ہے؟“ تو اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا کہ اس نے رمضان میں اپنی بیوی سے صحبت کر لی ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک تھیلی لائی گئی جس کو عذق (یا عروق) کہا جاتا تھا، اس میں کھجوریں تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جلنے والا کہاں ہے؟“ وہ آدمی کھڑا ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کو صدقہ کر دو۔“
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1759]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1935]، [مسلم 1112]، [أبويعلی 4663]، [ابن حبان 3528]
وضاحت: (تشریح احادیث 1754 سے 1756)
یہ حدیث مختصر ہے، مفصل ذکر اوپر گذر چکا ہے، رمضان کے دن میں جماع کرنے والے کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک غلام آزاد کرنے، یا دو ماہ کے مسلسل روزے رکھنے، یا ساٹھ مسکین کو کھانا کھلانے کا حکم دیا، یہ کفارہ ظہار ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ روزے کی حالت میں جماع کرنا بڑا سنگین جرم ہے اور اس کا کفارہ وہی ہے جو اوپر ذکر کیا گیا۔
اس حدیث سے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاقِ حسنہ بھی سامنے آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گناہ کے ارتکاب پر کوئی سرزنش نہیں کی بلکہ اس کی طرف سے نہ صرف کفارہ دیا بلکہ اس کو مخاطب بھی کیا تو بڑے لطیف انداز میں «(أَيْنَ الْمُحْتَرِقْ)»، وہ محترق (جلنے والا) کدھر ہے۔
سبحان اللہ! کتنا پیارا اسلوب اور اخلاق ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح