Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
16. بَابُ: {وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ} :
باب: آیت کی تفسیر ”اور جو کوئی کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کر دے تو اس کی سزا جہنم ہے“۔
حدیث نمبر: 4590
حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِي إِيَاسٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا مُغِيرَةُ بْنُ النُّعْمَانِ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ، قَالَ:" آيَةٌ اخْتَلَفَ فِيهَا أَهْلُ الْكُوفَةِ، فَرَحَلْتُ فِيهَا إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ فَسَأَلْتُهُ عَنْهَا، فَقَالَ: نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ سورة النساء آية 93 هِيَ آخِرُ مَا نَزَلَ وَمَا نَسَخَهَا شَيْءٌ".
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے مغیرہ بن نعمان نے بیان کیا، کہا میں نے سعید بن جبیر سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ علماء کوفہ کا اس آیت کے بارے میں اختلاف ہو گیا تھا۔ چنانچہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں اس کے لیے سفر کر کے گیا اور ان سے اس کے متعلق پوچھا۔ انہوں نے فرمایا کہ یہ آیت «ومن يقتل مؤمنا متعمدا فجزاؤه جهنم‏» اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے اس کی سزا دوزخ ہے۔ نازل ہوئی اور اس باب کی یہ سب سے آخری آیت ہے اسے کسی آیت نے منسوخ نہیں کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4590 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4590  
حدیث حاشیہ:
بلا وجہ ہر انسان کا خون ناحق بہت بڑا گناہ ہے۔
قرآن مجید نے ایسے خونی انسانوں کو پوری نوع انسانی کا قاتل قرار دیا ہے اور اسے بہت بڑا فساد ی مجرم بتلایا ہے پھر اگر یہ خون ناحق کسی مومن مسلمان کا ہے تو اس قاتل کو قرآن مجید نے ابدی دوزخی قرار دیا ہے جو قرآنی اصطلاح میں ایک سنگین ترین اور آخری سزا ہے۔
اسی آیت کے مطابق حضرت ابن عباس ؓ قاتل مومن کی توبہ قبول نہ ہونے کے قائل تھے۔
مگر سورۃ فرقان میں ﴿ إِلَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا﴾ (الفرقان: 70)
کے تحت جمہور اس کی توبہ کے قائل ہیں۔
واللہ اعلم بالصواب۔
روایت میں مذکورہ بزرگ ترین تابعی حضرت سعید بن جبیر کے عبرت انگیز حالات یہ ہیں۔
یہ سعید بن جبیر اسدی کوفی ہیں، جلیل القدر تابعین میں سے ایک یہ بھی ہیں۔
انہوں نے ابو مسعود، ابن عباس، ابن عمر، ابن زبیر اور انس ؓ سے علم حاصل کیا اور ان سے بہت لوگوں نے۔
ماہ شعبان 95ھ میں جبکہ ان کی عمر انچاس سال کی تھی حجاج بن یوسف نے ان کو قتل کرایا اور خود حجاج رمضان میں مرا اور بعض کے نزدیک اسی سال شوال میں اور یوں بھی کہتے ہیں کہ ان کی شہادت کے چھ ماہ بعد مرا۔
ان کے بعد حجاج کسی کے قتل پر قادر نہیں ہوا کیونکہ سعید نے اس کے لئے دعا کی تھی۔
جبکہ حجاج ان سے مخاطب ہو کر بولا کہ تم کو کس طرح قتل کیا جائے، میں تم کو اسی طرح قتل کروں گا۔
جبیر بولے کہ اے حجاج! تو اپنا قتل ہونا جس طرح چاہے وہ بتلا اس لیے کہ خدا کی قسم! جس طرح تو مجھ کو قتل کرے گا اسی طرح آخرت میں میں تجھ کو قتل کروںگا۔
حجاج بولا کہ کیا تم چاہتے ہو کہ میں تم کو معاف کردوں؟ بولے کہ اگر عفو واقع ہوا تو اللہ کی طرف سے ہوگا اور رہا تو اس میں تیرے لیے کوئی براءت و عذر نہیں۔
حجاج یہ سن کر بولا کہ ان کو لے جاؤ اور قتل کر ڈالو۔
پس جب ان کو دروازہ سے باہر نکالا تو یہ ہنس پڑے۔
اس کی اطلاع حجاج کو پہنچائی گئی تو حکم دیا کہ ان کو واپس لاؤ، لہذا واپس لایا گیا تو اس نے پوچھا کہ اب ہنسنے کا کیا سبب تھا؟ بولے کہ مجھ کو اللہ کے مقابلے میں تیری بیباکی اور اللہ تعالیٰ کی تیرے مقابل میں حلم و برد باری پر تعجب ہو تا ہے۔
حجاج نے یہ سن کر حکم دیا کہ کھال بچھائی جائے تو بچھائی گئی۔
پھرحکم دیا کہ ان کو قتل کر دیا جائے۔
اس کے بعد سعید بن جبیر نے فرمایا کہ ﴿إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ﴾ (الأنعام: 79)
یعنی میں نے اپنا رخ سب سے موڑ کر اس خدا کی طرف کر لیا ہے کہ جو خالق آسمان وزمین ہے اور میں شرک کرنے والوں میں نہیں۔
حجاج نے یہ سن کر حکم دیا کہ ان کو قبلہ کی مخالف سمت کر کے مضبوط باندھ دیا جائے۔
سعید نے فرمایا ﴿فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ﴾ (البقرة: 115)
جس طرف کو بھی تم رخ کروگے اسی طرف اللہ ہے۔
اب حجاج نے حکم دیا کہ سر کے بل اوندھا کر دیا جائے۔
سعید نے فرمایا، ﴿مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَى﴾ (طه: 55)
حجاج نے یہ سن کر حکم دیا اس کو ذبح کر دو۔
سعید نے فرمایا کہ میں شہادت دیتا ہوں اور حجت پیش کرتا ہوں اس بات کی کہ اللہ کے سوا اور کوئی معبود نہیں، وہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور اس بات کی کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں۔
یہ (حجت ایمانی)
میری طرف سے سنبھال یہاں تک کہ تو مجھ سے قیامت کے دن ملے۔
پھر سعید نے دعا کی کہ اے اللہ! حجاج کو میرے بعد کسی کے قتل پر قادر نہ کر۔
اس کے بعد کھال پر ان کو ذبح کردیا گیا۔
کہتے ہیں کہ حجاج ان کے قتل کے بعد پندرہ راتیں اور جیا اس کے بعد حجاج کے پیٹ میں کیڑوں کی بیماری پیدا ہوگئی۔
حجاج نے حکیم کو بلوایا تاکہ معائنہ کرے۔
حکیم نے گوشت کا ایک سڑا ہوا ٹکڑا منگوایا اور اس کو دھاگے میں پرو کر اس کے گلے سے اتارا اور کچھ دیر تک چھوڑ رکھا۔
اس کے بعد حکیم نے اس کو نکالا تو دیکھا کہ خون سے بھرا ہوا ہے۔
حکیم سمجھ گیا کہ اب یہ بچنے والا نہیں ہے۔
حجاج اپنی بقیہ زندگی میں چیختا رہتا تھا کہ مجھے اور سعید کو کیا ہو گیا کہ جب میں سوتا ہوں تو میرا پاؤں پکڑ کر ہلا دیتا ہے۔
سعید بن جبیر عراق کی کھلی آبادی میں دفن کئے گئے۔
رحمه اللہ رحمة واسعة
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4590   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4590  
حدیث حاشیہ:

بلاوجہ کسی کا خون ناحق بہت بڑا جرم ہے۔
قرآن مجید نے ایسے خونی انسان کو پوری نوع انسانی کا قاتل قراردیا ہے۔
حضرت ابن عباس ؓ کا موقف بہت واضح ہے کہ ایسے قاتل کی توبہ قبول نہیں ہوگی۔
چنانچہ ایک دوسری روایت میں حضرت سعید بن جبیر ؒ کہتے ہیں کہ مجھے عبدالرحمان بن ابزیٰ نے کہا:
تم حضرت ابن عباس ؓ سے درج ذیل دو آیات کے متعلق سوال کرو:
۔
''اور جو لوگ اللہ کے سوا کسی اور معبود کو نہیں پکارتے نہ اللہ کی حرام کردہ کسی جان کو ناحق قتل کرتے ہیں اور نہ زنا کرتے ہیں اور جو شخص یہ کام کرے گا وہ ان کی سزا پاکے رہے گا۔
قیامت کے دن اس کا عذاب دگنا کردیا جائےگا۔
اور وہ ذلیل ہوکر اس میں ہمیشہ کےلیے پڑ ارہےگا،ہاں جو شخص توبہ کرے اور ایمان لے آئے اور نیک عمل کرے تو ایسے لوگوں کی بُرائیوں کو اللہ نیکیوں میں بدل دے گا۔
"(الفرقان: 70: 25)
۔
اور جو شخص کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کردے تو اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔
اس پر اللہ کا غضب اور اس کی لعنت ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے بہت بڑا عذاب تیار کررکھا ہے۔
" (النساء: 93/4)
میں نے ان آیات کے متعلق حضرت ابن عباس ؓ سے سوال کیا تو انھوں نے فرمایا:
جو آیت سورۃ الفرقان میں ہے وہ اہل مکہ کے مشرکین سے تعلق رکھتی ہے۔
انھوں نے کہا:
ہم نے اللہ کی حرام کردہ جانوں کوقتل کیا ہے اور اللہ کے ساتھ دوسروں کو معبود بھی بنایا، نیز فواحش ومنکرات کا ارتکاب بھی کیا ہے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی تسلی کے لیے نازل فرمایا کہ ہاں جو توبہ کرے اور ایمان لے آئے۔
۔
۔
یعنی یہ آیات مشرکین مکہ کے بارے میں ہیں۔
جو آیت سورۃ النساء میں ہے یہ اس شخص کے متعلق ہے جو اسلام لایا اور اس کے احکامات کو پہچانا پھر کسی قتل کا مرتکب ہوا تو اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔
میں نے اس مؤقف کا ذکر حضرت مجاہد ؒ سے کیا تو انھوں نے فرمایا:
وہ لوگ اس حکم سے الگ ہیں جو توبہ کرلیں۔
(صحیح البخاري، مناقب الأنصار، حدیث: 3855)
ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا:
ایسے آدمی کی کوئی توبہ نہیں ہے۔
ایک دوسری روایت میں ہے کہ سورۃ الفرقان مکی سورت ہے جسے اس آیت نے منسوخ کردیا ہے جو مدنی سورۃ النساء میں ہے۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4762)
حضرت ابن عباس ؓ کے موقف کی تائید میں ایک حدیث بھی پیش کی جاتی ہے جسے حضرت معاویہ ؓ نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"اللہ تعالیٰ ہرگناہ معاف کردے گا مگر وہ آدمی کہ کفر کی حالت میں مرا اور دوسرا وہ آدمی جس نے کسی دوسرے مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کیا۔
" (مسندأحمد: 99/4۔
)


جمہور اہل علم کہتے ہیں کہ قاتل کے لیے توبہ کا دروازہ کھلا ہے اگروہ سچے دل سے توبہ کرتا ہے تو اس گناہ عظیم کی معافی ہوسکتی ہے۔
وہ اس سلسلے میں درج ذیل دلائل پیش کرتے۔
۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"اللہ تعالیٰ اس بات کو معاف نہیں کرے گا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایاجائے اور اس کے علاوہ دیگر گناہ جس کے لیے چاہے گا معاف کردے گا۔
" (النساء: 48/4)
یہ آیت عام ہے کہ شرک کے علاوہ ہرگناہ قابل معافی ہے اور دانستہ قتل کرنا بھی اس میں شامل ہے۔
۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"آپ لوگوں سے کہہ دیں:
اے میرے وہ بندو جنھوں نے اپنی جانوں سے زیادتی کی ہے!اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا۔
یقیناً بے شک اللہ سب گناہ معاف کردے گا کیونکہ وہ غفور ورحیم ہے۔
'' (الزمر: 53: 39)
۔
رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
"میرے بندو!تم رات دن گناہ کرتے ہو اور میں تمام گناہ معاف کردیتا ہوں، لہذا تم مجھ سے معافی مانگو،میں معاف کردوں گا۔
" (صحیح مسلم، البر والصلة والأدب، حدیث: 6672۔
(2577)
۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"اللہ تعالیٰ دوآدمیوں سے بہت خوش ہوتا ہے ان میں سے ایک دوسرے کو قتل کرتا ہے لیکن دونوں جنت میں داخل ہوجاتے ہیں:
ایک تواللہ کے راستے میں قتال کرتا ہے اور وہ اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ قاتل کو توبہ کی توفیق دیتا ہے اور وہ بھی مسلمان ہوکر شہید ہوجاتا ہے۔
'' (صحیح البخاري، الجھاد والسیر، حدیث: 2826)

ہمارے رجحان کے مطابق جمہور اہل علم کا موقف ہی قابل اعتبار ہے کیونکہ قرآن وحدیث سے اس کی واضح طور پر تائید ہوتی ہے کیونکہ حدیث میں ہے کہ ایک اسرائیلی نے سوآدمی قتل کردیے تو ایک عالم نے کہا:
کون ہے جو تمہارے اور تمہاری توبہ کے درمیان حائل ہوسکے۔
(صحیح البخاري، أحادیث الأنبیاء، حدیث: 3470)
الغرض اسے معاف کردیا گیا۔
یہ حدیث نص صریح ہے کہ قاتل کے لیے توبہ کا دروازہ کھلا ہے۔
حضرت ابن عباس ؓ کے موقف کی یہ توجیہ ہوسکتی ہے کہ اس سے مراد وہ شخص ہے جو قتل کو حلال سمجھتا ہو یا وہ قاتل توبہ کے بغیر مرجائے، اسے سنگینی اور تغلیظ پر بھی محمول کیا جاسکتا ہے، نیز قرآنی آیت میں خلود سے مراد لمبی مدت ہو ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہنا نہیں کیونکہ یہ سزا توصرف اور صرف مشرکین اور کفار کے لیے ہے۔
یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ واقعی دیدہ دلیری سے کسی مومن مومن کو قتل کرنے کی سزا یہی ہے جو آیت میں بیان ہوئی ہے لیکن یہ اس صورت میں ہے جب اللہ تعالیٰ اسے سزا دینا چاہے اور اس سزا کے لیے کوئی مانع نہ ہو۔
لیکن اگر اللہ تعالیٰ اسے معاف کردے تو توبہ کرنے سے اس کا گناہ معاف ہوجائے تو پھر اسے ہمیشہ کے لیے جہنم میں نہیں رکھا جائے گا۔
بہرحال جمہور اہل علم کا موقف حقیقت پر مبنی ہے اور دلائل وبراہین سے مزین ہے۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4590