Note: Copy Text and Paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
15. بَابُ: {فَمَا لَكُمْ فِي الْمُنَافِقِينَ فِئَتَيْنِ وَاللَّهُ أَرْكَسَهُمْ} :
باب: آیت کی تفسیر یعنی اور ”تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم منافقین کے بارے میں دو گروہ ہو گئے ہو حالانکہ اللہ نے ان کے کرتوتوں کے باعث انہیں الٹا پھیر دیا“۔
قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: بَدَّدَهُمْ فِئَةٌ جَمَاعَةٌ.
‏‏‏‏ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ «اركسهم» بمعنی «بددهم» ہے۔ «فئة» یعنی جماعت۔
حدیث نمبر: 4589
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ، قَالَا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَدِيٍّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَمَا لَكُمْ فِي الْمُنَافِقِينَ فِئَتَيْنِ سورة النساء آية 88، رَجَعَ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أُحُدٍ وَكَانَ النَّاسُ فِيهِمْ فِرْقَتَيْنِ، فَرِيقٌ يَقُولُ اقْتُلْهُمْ، وَفَرِيقٌ يَقُولُ: لَا، فَنَزَلَتْ: فَمَا لَكُمْ فِي الْمُنَافِقِينَ فِئَتَيْنِ سورة النساء آية 88، وَقَالَ:" إِنَّهَا طَيْبَةُ، تَنْفِي الْخَبَثَ كَمَا تَنْفِي النَّارُ خَبَثَ الْفِضَّةِ".
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر اور عبدالرحمٰن نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عدی نے، ان سے عبداللہ بن یزید نے اور ان سے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے آیت «فما لكم في المنافقين فئتين‏» اور تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم منافقین کے بارے میں دو فریق ہو گئے ہو۔ کے بارے میں فرمایا کہ کچھ لوگ منافقین جو (اوپر سے) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، جنگ احد میں (آپ چھوڑ کر) واپس چلے آئے تو ان کے بارے میں مسلمانوں کی دو جماعتیں ہو گئیں۔ ایک جماعت تو یہ کہتی تھی کہ (یا رسول اللہ!) ان (منافقین) سے قتال کیجئے اور ایک جماعت یہ کہتی تھی کہ ان سے قتال نہ کیجئے۔ اس پر یہ آیت اتری «فما لكم في المنافقين فئتين‏» کہ تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم منافقین کے بارے میں دو گروہ ہو گئے ہو۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ مدینہ «طيبة» ہے۔ یہ خباثت کو اس طرح دور کر دیتا ہے جیسے آگ چاندی کی میل کچیل کو دور کر دیتی ہے۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4589 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4589  
حدیث حاشیہ:

ان منافقین نے واپس جا کر اپنی منافقت کا ثبوت مہیا کردیا ہے، اب اگر تم چاہو کہ ہمیں ان سے لڑائی نہیں کرنی چاہیے شاید وہ راہ راست پر آجائیں تو یہ بات تمہارے بس میں نہیں۔

اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ ایسے منافقین واجب القتل ہیں کیونکہ ان کے عزائم یہ ہیں کہ تمھیں بھی اپنے جیسا بنا کر چھوڑیں۔
یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ منافقین کی ایک قسم ایسی بھی تھی جو مدینے کے ارد گرد پھیلے ہوئے قبائل سے تعلق رکھتے تھے۔
یہ لوگ مسلمانوں سے خیر خواہی اور محبت کا اظہار ضرورکرتے تھے مگر عملی طور پر وہ اپنے ہم وطن کافروں کا ساتھ دیتے تھےان کےلیے یہ میعار مقررکیا گیا کہ اگر وہ ہجرت کرکے تمہارے پاس مدینہ آجائیں اور تمہارے ساتھ شامل ہوجائیں تو اس صورت میں تم انھیں سچا بھی خیال کرو اور ان سے ہمدردی بھی کرو اور اگر وہ گھر بار چھوڑنے کی قربانی نہ دیں تو انھیں قتل کرنے سے ہرگز دریغ نہ کرو لیکن اس حکم قتل سے دو قسم کے منافق مستثنیٰ ہیں۔
۔
جو کسی ایسی قوم میں چلے جائیں جن سے معاہدہ امن ہوچکا ہے ان کا تعاقب نہ کیا جائے۔
۔
وہ منافقین جو غیر جانبدار رہناچاہتے ہوں تمہارے ساتھ مل کر اپنی قوم سے یا ان کے ساتھ مل کر تم سے لڑنا نہ چاہتے ہوں۔
ان دو قسم کے لوگوں سے جنگ نہ کی جائے۔

امام بخاری ؒ کا رجحان یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان سے منافقین مدینہ ہی مراد ہیں۔
ایک تو آپ نے حضرت زید بن ثابت ؓ سے مروی حدیث پیش کی ہے، دوسرے مدینہ طیبہ کے متعلق صراحت کی ہے کہ وہ بھٹی کی طرح ہے جو چاندی کا میل کچیل دورکردیتی ہے۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4589   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3028  
´سورۃ نساء سے بعض آیات کی تفسیر۔`
عبداللہ بن یزید رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ زید بن ثابت رضی الله عنہ آیت: «فما لكم في المنافقين فئتين» کی تفسیر کے سلسلے میں کہتے ہیں احد کی لڑائی کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ (ساتھی یعنی منافق میدان جنگ سے) لوٹ آئے ۱؎ تو لوگ ان کے سلسلے میں دو گروہوں میں بٹ گئے۔ ایک گروہ نے کہا: انہیں قتل کر دو، اور دوسرے فریق نے کہا: نہیں، قتل نہ کرو تو یہ آیت «فما لكم في المنافقين فئتين» ۱؎ نازل ہوئی، اور آپ نے فرمایا: مدینہ پاکیزہ شہر ہے، یہ ناپاکی و گندگی کو (إن شاء اللہ) ایسے دور کر دے گا جیسے آگ لوہے کی ناپاکی (میل و زنگ) کو دور کر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3028]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
جہاد میں شریک نہ ہوئے۔

2؎:
 تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ منافقوں کے بارے میں دو گروہ ہو رہے ہو (النساء: 88)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3028   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1884  
1884. حضرت زید بن ثابت ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ جب رسول اللہ ﷺ غزوہ اُحد کے لیے مدینہ طیبہ سے نکلے اس دوران آپ کے بعض ساتھی واپس چلے گئے تو کچھ کہنے لگے: ہم انھیں قتل کردیں گے اور اس کے برعکس چند لوگوں نے کہا: ہم انھیں قتل نہیں کریں گے۔ اس پر آیت کریمہ نازل ہوئی: تمہارا کیا حال ہے کہ تم منافقین کے بارے میں دو گروہ بن گئے ہو۔ ان حالات میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا: مدینہ طیبہ(منافق) آدمیوں کو اس طرح دور کردیتا ہے جس طرح آگ لوہے سے زنگار دور کرتی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1884]
حدیث حاشیہ:
(1)
مدینہ طیبہ کا وصف مذکور ان لوگوں کے لیے ہے جو اسلام کی خواہش رکھتے ہوئے مسلمان ہوئے، پھر ان کے دل میں خرابی پیدا ہوئی۔
ایسے لوگوں کو مدینہ طیبہ اپنے اندر پناہ نہیں دیتا، بصورت دیگر مدینہ طیبہ میں منافقین رہتے تھے، وہیں مرے اور دفن ہوئے۔
مدینہ طیبہ نے انہیں اپنے سے دور نہیں کیا کیونکہ مدینہ طیبہ ان کی اصل قیام گاہ تھی۔
وہ اسلام کی حیثیت سے وہاں نہیں رہتے تھے نہ انہیں مدینہ طیبہ سے محبت ہی تھی۔
ان کا وہاں رہنا صرف اس لیے تھا کہ وہ ان کا اصلی وطن اور وہی ذریعۂ معاش تھا۔
(عمدةالقاري: 598/7) (2)
یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مدینہ طیبہ کا یہ وصف رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک کے ساتھ خاص ہو کہ آپ کے دور میں مدینہ طیبہ سے نفرت کرتے ہوئے وہی نکلتا تھا جس کے دل میں ایمان کا شائبہ تک نہ ہوتا تھا، نیز یہ بھی ممکن ہے کہ اس کا تعلق دجال اکبر کی آمد کے ساتھ مخصوص ہو کیونکہ اس کی آمد پر مدینہ طیبہ سے جھٹکوں کے ذریعے سے تمام ان لوگوں کو نکال دیا جائے گا جو دل کے روحانی مریض ہوں گے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1884