سنن دارمي
من كتاب الصوم
روزے کے مسائل
8. باب مَا يُسْتَحَبُّ مِنْ تَأْخِيرِ السُّحُورِ:
سحری کھانے میں تاخیر کرنا مستحب ہے
حدیث نمبر: 1733
أَخْبَرَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، قَالَ: "تَسَحَّرْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ثُمَّ قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ. قَالَ: قُلْتُ: كَمْ كَانَ بَيْنَ الْأَذَانِ وَالسُّحُورِ؟ قَالَ: قَدْرُ قِرَاءَةِ خَمْسِينَ آيَةً".
سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سحری کھائی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لئے کھڑے ہوئے، راوی نے کہا: میں نے زید سے پوچھا سحری اور اذان میں کتنا فاصلہ ہوتا تھا؟ بتایا کہ پچاس آیات پڑھنے کے برابر فاصلہ ہوتا تھا۔
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1737]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1921]، [مسلم 1097]، [ترمذي 703]، [نسائي 2154]، [ابن ماجه 1694]، [أبويعلی 2943]، [ابن حبان 1497]
وضاحت: (تشریح حدیث 1732)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خود سید البشر افضل الخلق محمد صلی اللہ علیہ وسلم سحری کرتے تھے اور طلوعِ فجر سے پہلے آخر وقت میں کھانا تناول فرماتے تھے، اس سے سحری تاخیر سے کھانا ثابت ہوا جو سنّتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق مستحب و مسنون ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح