سنن دارمي
من كتاب الصوم
روزے کے مسائل
5. باب الشَّهْرُ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ:
مہینہ 29 دن کا بھی ہوتا ہے
حدیث نمبر: 1728
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهِ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"إِنَّمَا الشَّهْرُ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ، فَلَا تَصُومُوا حَتَّى تَرَوْهُ، وَلَا تُفْطِرُوا حَتَّى تَرَوْهُ، فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ، فَاقْدُرُوا لَهُ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مہینہ (کبھی) انتیس کا بھی ہوتا ہے اس لئے (انتیس دن پورے ہونے پر) جب تک چاند نہ دیکھ لو روزہ نہ رکھو، اور نہ چاند دیکھے بنا روزہ موقوف کرو، اگر ابر ہو جائے تو تیس دن کا شمار پورا کر لو۔“
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1732]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1914]، [مسلم 1082]، [أبوداؤد 2320]، [أبويعلی 5999]، [ابن حبان 3586]
وضاحت: (تشریح حدیث 1727)
لمعات میں ملا علی قاری نے اس حدیث کے ذیل میں لکھا ہے: جمہور علمائے سلف اور خلف کا اسی حدیث پر عمل ہے، بعض لوگوں نے کہا ہے کہ مذکورہ بالا حدیث میں لفظ «فَاقْدُرُوْا لَهُ» سے حسابِ نجوم کا ضبط مراد ہے یہ قول درست نہیں ہے۔
آج کل تقویم یا جنتری میں جو تاریخ بتلائی جاتی ہے گرچہ اس کے مرتب کرنے والے پوری کوشش کرتے ہیں مگر شرعی امور کے لئے محض ان کی رائے اور شمار پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا، خاص طور سے رمضان اور عیدین کے لئے رؤیتِ ہلال یا دو معتبر گواہوں کی شہادت ضروری ہے (داؤد راز رحمۃ اللہ علیہ)۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح