سنن دارمي
من كتاب الزكاة
زکوٰۃ کے مسائل
37. باب مَنْ تَحِلُّ لَهُ الصَّدَقَةُ:
صدقہ لینا کس کے لئے جائز ہے؟
حدیث نمبر: 1716
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، وَأَبُو نُعَيْمٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ هَارُونَ بْنِ رِئَابٍ، حَدَّثَنِي كِنَانَةُ بْنُ نُعَيْمٍ، عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ مُخَارِقٍ الْهِلَالِيِّ، قَالَ: تَحَمَّلْتُ بِحَمَالَةٍ فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَسْأَلُهُ فِيهَا، فَقَالَ:"أَقِمْ يَا قَبِيصَةُ حَتَّى تَأْتِيَنَا الصَّدَقَةُ، فَنَأْمُرَ لَكَ بِهَا"، ثُمَّ قَالَ:"يَا قَبِيصَةُ إِنَّ الْمَسْأَلَةَ لَا تَحِلُّ إِلَّا لِأَحَدِ ثَلَاثَةٍ: رَجُلٍ تَحَمَّلَ حَمَالَةً فَحَلَّتْ لَهُ الْمَسْأَلَةُ، فَسَأَلَ حَتَّى يُصِيبَهَا، ثُمَّ يُمْسِكَ. وَرَجُلٍ أَصَابَتْهُ جَائِحَةٌ فَاجْتَاحَتْ مَالَهُ، فَحَلَّتْ لَهُ الْمَسْأَلَةُ، فَسَأَلَ حَتَّى يُصِيبَ قِوَامًا مِنْ عَيْشٍ أَوْ قَالَ: سِدَادًا مِنْ عَيْشٍ. وَرَجُلٍ أَصَابَتْهُ فَاقَةٌ حَتَّى يَقُولَ ثَلَاثَةٌ مِنْ ذَوِي الْحِجَى مِنْ قَوْمِهِ: قَدْ أَصَابَ فُلَانًا الْفَاقَةُ، فَحَلَّتْ لَهُ الْمَسْأَلَةُ، فَسَأَلَ حَتَّى يُصِيبَ قِوَامًا مِنْ عَيْشٍ، أَوْ سِدَادًا مِنْ عَيْشٍ، ثُمَّ يُمْسِكَ، وَمَا سِوَاهُنَّ مِنْ الْمَسْأَلَةِ سُحْتٌ يَا قَبِيصَةُ يَأْكُلُهَا صَاحِبُهَا سُحْتًا".
سیدنا قبیصہ بن محارق ہلالی رضی اللہ عنہ نے کہا: میں ایک قرنے کا ضامن ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں (مدد کے لئے) حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قبیصہ! رکو، ہمارے پاس صدقے کا مال آ جائے تو ہم تمہارے لئے حکم کر دیں گے“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے قبیصہ! سوال کرنا (مانگنا) صرف تین میں سے کسی ایک کے لئے درست ہے: وہ جس پر ضمانت کا بوجھ آ پڑا ہو اور وہ ادا نہیں کر سکتا ہو تو اس کو سوال کرنا درست ہے جب تک ضمانت سے آزاد نہ ہو پھر مانگنے سے اسے رک جانا چاہیے، دوسرا وہ شخص جس کو کوئی آفت یا مصیبت ایسی آئے کہ اس کا مال تباہ کر دے اس کو مانگنا درست ہے یہاں تک کہ اتنی پونجی حاصل کر لے جو اس کے گزارے کو کافی ہو، تیسرا وہ آدمی جس کو فاقے کی نوبت آ جائے اور اس کی قوم کے تین عقل مند آدمی گواہی دیں کہ فلاں شخص سخت فاقے میں ہے اس کو بھی مانگتا (سوال کرنا) درست ہے یہاں تک کہ گزارے کے لائق اس کو مل جائے پھر مانگنے سے باز رہے، اے قبیصہ! ان تینوں صورتوں کے علاوہ مانگنا حرام ہے اور جو شخص مانگ کر کھائے گا وہ حرام مال کھائے گا۔“
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1720]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1044]، [أبوداؤد 1640]، [نسائي 2578]، [ابن حبان 3291]، [الحميدي 838]
وضاحت: (تشریح حدیث 1715)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صدقہ لینا صرف اس کے لئے جائز ہے جس کے پاس مال نہ ہو اور اس کو اشد ضرورت پیش آجائے، جیسا کہ ترجمے سے واضح ہوتا ہے، اور بنا ضرورت مانگنا اور مال جمع کرنا حرام ہے، اور ایسا آدمی حرام کھاتا اور اپنے اہل و عیال کو حرام کھلاتا ہے۔
یہ اسلام کا بہترین نظام اور قانون ہے جس نے گداگری کے دروازے بند کر دیئے ہیں۔
اسی طرح کی تفصیل حدیث نمبر (1684) اور (1688) میں گذر چکی ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح