سنن دارمي
من كتاب الصللاة
نماز کے مسائل
81. باب السُّنَّةِ فِيمَنْ سُبِقَ بِبَعْضِ الصَّلاَةِ:
نماز کا کچھ حصہ چھوٹ جائے تو اس بارے میں سنت طریقے کا بیان
حدیث نمبر: 1373
أَخْبَرَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ الطَّوِيلُ، حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْمُزَنِيُّ، عَنْ حَمْزَةَ بْنِ الْمُغِيرَةِ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ قَالَ:"فَانْتَهَيْنَا إِلَى الْقَوْمِ وَقَدْ قَامُوا إِلَى الصَّلَاةِ يُصَلِّي بِهِمْ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ وَقَدْ رَكَعَ بِهِمْ، فَلَمَّا أَحَسَّ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَهَبَ يَتَأَخَّرُ، فَأَوْمَأْ إِلَيْهِ بِيَدِهِ، فَصَلَّى بِهِمْ، فَلَمَّا سَلَّمَ، قَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقُمْتُ، فَرَكَعْنَا الرَّكْعَةَ الَّتِي سُبِقْنَا"، قَالَ أَبُو مُحَمَّد: أَقُولُ فِي الْقَضَاءِ بِقَوْلِ أَهْلِ الْكُوفَةِ: أَنْ يَجْعَلَ مَا فَاتَهُ مِنْ الصَّلَاةِ قَضَاءً.
سیدنا مغیرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: جب ہم لوگوں کے پاس پہنچے تو وہ نماز کھڑی کر چکے تھے اور سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ انہیں نماز فجر پڑھا رہے تھے اور رکوع میں جا چکے تھے، اور جب انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد محسوس کی تو پیچھے ہٹنے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے اشارہ کیا، پس انہوں نے پوری نماز پڑھائی، پھر جب سلام پھیرا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور میں بھی کھڑا ہوا اور ہم سے جو (پہلی) رکعت چھوٹ گئی تھی وہ ہم نے پڑھی۔ ابومحمد امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: فتوے کے اعتبار سے میں اہل کوفہ کے قول کا قائل ہوں کہ جو رکعت چھوٹ گئی وہ قضا کی جائے یعنی قضا مانی جائے گی، اور امام کی ساتھ والی رکعت دوسری ہی ہو گی۔
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1375]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 274/81]، [ابن حبان 1326]
وضاحت: (تشریح احادیث 1371 سے 1373)
یہ امام دارمی رحمہ اللہ اور اہلِ کوفہ کا قول ہے اور صحیح یہ ہے کہ امام کے ساتھ والی رکعت پہلی رکعت ہوگی اور باقی بالترتیب دوسری یا تیسری۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر مقتدی مسبوق ہو تو وہ اپنی نماز امام کے سلام پھیرنے کے بعد پوری کر لے، نیز اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تحمل اور بردباری و حسنِ اخلاق کا اعلیٰ نمونہ ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھانے پر کسی کو کوئی سرزنش نہیں کی، فداہ ابی وامی صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم تسلیماً کثیرا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ تاخیر قضائے حاجت کی وجہ سے تھی۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح