Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن دارمي
من كتاب الصللاة
نماز کے مسائل
71. باب الْقَوْلِ بَعْدَ رَفْعِ الرَّأْسِ مِنَ الرُّكُوعِ:
رکوع سے سر اٹھانے کے بعد کیا کہنا چاہئے
حدیث نمبر: 1351
أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَمِّهْ الْمَاجِشُونَ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ الرُّكُوعِ، قَالَ: "سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ مِلْءَ السَّمَوَاتِ وَمِلْءَ الْأَرْضِ، وَمِلْءَ مَا بَيْنَهُمَا، وَمِلْءَ مَا شِئْتَ مِنْ شَيْءٍ بَعْدُ". قِيلَ لِعَبْدِ اللَّهِ: تَأْخُذُ بِهِ؟ قَالَ: لَا، وَقِيلَ لَهُ: تَقُولُ هَذَا فِي الْفَرِيضَةِ؟ قَالَ: عَسَى، وَقَالَ: كُلُّهُ طَيِّبٌ.
سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رکوع سے سر اٹھاتے تو کہتے تھے: «سَمِعَ اللّٰهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ مِلْءَ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ وَمِلْءَ مَا بَيْنَهُمَا وَمِلْءَ مَا شِئْتَ مِنْ شَيْيءٍ بَعْدُ» ۔ امام دارمی رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: آپ یہی کہتے ہیں؟ کہا: نہیں، پوچھا گیا کیا آپ فرض نماز میں اس طرح کہتے ہیں؟ کہا: تقریباً اور بتایا کہ سب کچھ (جو ماثور ہے وہ کہنا) درست ہے۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1353]»
یہ حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 771]، [أبوداؤد 847]، [نسائي 1065]، [أبويعلی 285]، [ابن حبان 1904]

وضاحت: (تشریح احادیث 1348 سے 1351)
ان روایات سے معلوم ہوا کہ رکوع سے اٹھتے ہوئے امام و منفرد کا «سَمِعَ اللّٰهُ لِمَنْ حَمِدَه» کہنا اور سب مقتدی حضرات کا «رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ» يا «اَللّٰهُمَّ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ» کہنا نماز کے واجبات میں سے ہے، کیونکہ فرمانِ نبوی ہے: «فقولوا: رَبَّنَا» اور اس کے بعد «حَمْدًا كَثِيْرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيْهِ» یا «رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ مِلْءَ السَّمَاوَاتِ» کما فی الحدیث کہنا یہ تمام اذکار احادیثِ صحیحہ سے ثابت ہیں اس لئے ان کا پڑھنا بھی سنّت ہے، رکوع سے اٹھ کر فوراً بلا کچھ پڑھے سجدے میں چلے جانا خلافِ سنّتِ رسول ہے۔
صلی الله علیہ وسلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح