Note: Copy Text and to word file

صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
8. بَابُ: {إِذْ هَمَّتْ طَائِفَتَانِ مِنْكُمْ أَنْ تَفْشَلاَ} :
باب: آیت کی تفسیر ”جب تم میں سے دو جماعتیں اس کا خیال کر بیٹھی تھیں کہ وہ بزدل ہو کر ہمت ہار بیٹھیں“۔
حدیث نمبر: 4558
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: قَالَ عَمْرٌو: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ:" فِينَا نَزَلَتْ إِذْ هَمَّتْ طَائِفَتَانِ مِنْكُمْ أَنْ تَفْشَلا وَاللَّهُ وَلِيُّهُمَا سورة آل عمران آية 122، قَالَ: نَحْنُ الطَّائِفَتَانِ: بَنُو حَارِثَةَ، وَبَنُو سَلِمَةَ، وَمَا نُحِبُّ، وَقَالَ سُفْيَانُ مَرَّةً:" وَمَا يَسُرُّنِي أَنَّهَا لَمْ تُنْزَلْ لِقَوْلِ اللَّهِ وَاللَّهُ وَلِيُّهُمَا سورة آل عمران آية 122.
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا عمرو بن دینار نے کہا، انہوں نے جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ہمارے ہی بارے میں یہ آیت نازل ہوئی تھی، جب ہم سے دو جماعتیں اس کا خیال کر بیٹھی تھیں کہ ہمت ہار دیں، درآں حالیکہ اللہ دونوں کا مددگار تھا۔ سفیان نے بیان کیا کہ ہم دو جماعتیں بنو حارثہ اور بنو سلمہ تھے۔ حالانکہ اس آیت میں ہمارے بودے پن کا ذکر ہے، مگر ہم کو یہ پسند نہیں کہ یہ آیت نہ اترتی کیونکہ اس میں یہ مذکور ہے کہ اللہ ان دونوں گروہوں کا مددگار (سر پرست) ہے۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4558 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4558  
حدیث حاشیہ:
اس سے بڑھ کر اور فضیلت کیا ہو گی کہ ولایت الٰہی ہم کو حاصل ہو گئی۔
ہمارے بودے پن کا جو ذکر ہے وہ صحیح ہے۔
اس فضیلت کے سامنے ہم کو اس عیب کے فاش ہونے کا بالکل ملال نہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4558   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4558  
حدیث حاشیہ:

غزوہ اُحد میں مسلمانوں کا لشکر ایک ہزار افراد پر مشتمل تھا جبکہ مشرکین کی تعداد تین ہزار تھی، دوران کوچ رئیس المنافقین اپنے تین سو افراد لے کر واپس ہوگیا تو خزرج میں سے بنو سلمہ اور اوث میں سے بنوحارثہ نے بھی منافقین کے ساتھ کھسک جانے کا بزدلانہ ارادہ کیا۔
لیکن اللہ تعالیٰ نے انھیں بچا لیا، چنانچہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ کوچ جاری رکھا۔

حضرت جابرؓ کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ اس آیت میں ہماری کمزوری کا ذکر ہے لیکن اس فضیلت کے سامنے ہمیں اپنے اس عیب کے فاش ہونے کا بالکل ملال نہیں کیونکہ اس میں ہمارے لیے اللہ تعالیٰ کی سرپرستی کا بھی ذکر ہے، ہمیں تو اللہ تعالیٰ کی ولایت حاصل ہوگئی۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4558