Note: Copy Text and to word file

صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
4. بَابُ: {قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَنْ لاَ نَعْبُدَ إِلاَّ اللَّهَ} :
باب: آیت کی تفسیر ”آپ کہہ دیں کہ اے کتاب والو! ایسے قول کی طرف آ جاؤ جو ہم میں تم میں برابر ہے، وہ یہ کہ ہم اللہ کے سوا اور کسی کی عبادت نہ کریں“۔
سَوَاءٌ قَصْدٌ.
‏‏‏‏ «سواء» کے معنی ایسی بات ہے جسے ہم اور تم دونوں تسلیم کرتے ہیں جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے۔
حدیث نمبر: 4553
حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، عَنْ هِشَامٍ، عن معمر. ح وحَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو سُفْيَانَ مِنْ فِيهِ إِلَى فِيَّ، قَالَ: انْطَلَقْتُ فِي الْمُدَّةِ الَّتِي كَانَتْ بَيْنِي وَبَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَبَيْنَا أَنَا بِالشَّأْمِ إِذْ جِيءَ بِكِتَابٍ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى هِرَقْلَ، قَالَ: وَكَانَ دَحْيَةُ الْكَلْبِيُّ جَاءَ بِهِ فَدَفَعَهُ إِلَى عَظِيمِ بُصْرَى، فَدَفَعَهُ عَظِيمُ بُصْرَى إِلَى هِرَقْلَ، قَالَ: فَقَالَ هِرَقْلُ: هَلْ هَا هُنَا أَحَدٌ مِنْ قَوْمِ هَذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ؟ فَقَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: فَدُعِيتُ فِي نَفَرٍ مِنْ قُرَيْشٍ فَدَخَلْنَا عَلَى هِرَقْلَ فَأُجْلِسْنَا بَيْنَ يَدَيْهِ، فَقَالَ: أَيُّكُمْ أَقْرَبُ نَسَبًا مِنْ هَذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ؟ فَقَالَ: أَبُو سُفْيَانَ، فَقُلْتُ: أَنَا، فَأَجْلَسُونِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَأَجْلَسُوا أَصْحَابِي خَلْفِي، ثُمَّ دَعَا بِتَرْجُمَانِهِ، فَقَالَ: قُلْ لَهُمْ إِنِّي سَائِلٌ هَذَا عَنْ هَذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ، فَإِنْ كَذَبَنِي، فَكَذِّبُوهُ، قَالَ أَبُو سُفْيَانَ: وَايْمُ اللَّهِ لَوْلَا أَنْ يُؤْثِرُوا عَلَيَّ الْكَذِبَ لَكَذَبْتُ، ثُمَّ قَالَ لِتَرْجُمَانِهِ: سَلْهُ كَيْفَ حَسَبُهُ فِيكُمْ؟ قَالَ: قُلْتُ: هُوَ فِينَا ذُو حَسَبٍ، قَالَ: فَهَلْ كَانَ مِنْ آبَائِهِ مَلِكٌ؟ قَالَ: قُلْتُ: لَا، قَالَ: فَهَلْ كُنْتُمْ تَتَّهِمُونَهُ بِالْكَذِبِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ مَا قَالَ؟ قُلْتُ: لَا، قَالَ: أَيَتَّبِعُهُ أَشْرَافُ النَّاسِ أَمْ ضُعَفَاؤُهُمْ؟ قَالَ: قُلْتُ: بَلْ ضُعَفَاؤُهُمْ، قَالَ: يَزِيدُونَ أَوْ يَنْقُصُونَ، قَالَ: قُلْتُ: لَا، بَلْ يَزِيدُونَ، قَالَ: هَلْ يَرْتَدُّ أَحَدٌ مِنْهُمْ عَنْ دِينِهِ بَعْدَ أَنْ يَدْخُلَ فِيهِ سَخْطَةً لَهُ؟ قَالَ: قُلْتُ: لَا، قَالَ: فَهَلْ قَاتَلْتُمُوهُ؟ قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَكَيْفَ كَانَ قِتَالُكُمْ إِيَّاهُ؟ قَالَ: قُلْتُ: تَكُونُ الْحَرْبُ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُ سِجَالًا، يُصِيبُ مِنَّا وَنُصِيبُ مِنْهُ، قَالَ: فَهَلْ يَغْدِرُ؟ قَالَ: قُلْتُ: لَا، وَنَحْنُ مِنْهُ فِي هَذِهِ الْمُدَّةِ لَا نَدْرِي مَا هُوَ صَانِعٌ فِيهَا، قَالَ: وَاللَّهِ مَا أَمْكَنَنِي مِنْ كَلِمَةٍ أُدْخِلُ فِيهَا شَيْئًا غَيْرَ هَذِهِ، قَالَ: فَهَلْ قَالَ هَذَا الْقَوْلَ أَحَدٌ قَبْلَهُ؟ قُلْتُ: لَا، ثُمَّ قَالَ لِتُرْجُمَانِهِ: قُلْ لَهُ إِنِّي سَأَلْتُكَ عَنْ حَسَبِهِ فِيكُمْ، فَزَعَمْتَ أَنَّهُ فِيكُمْ ذُو حَسَبٍ، وَكَذَلِكَ الرُّسُلُ تُبْعَثُ فِي أَحْسَابِ قَوْمِهَا، وَسَأَلْتُكَ هَلْ كَانَ فِي آبَائِهِ مَلِكٌ؟ فَزَعَمْتَ أَنْ لَا، فَقُلْتُ: لَوْ كَانَ مِنْ آبَائِهِ مَلِكٌ قُلْتُ رَجُلٌ يَطْلُبُ مُلْكَ آبَائِهِ، وَسَأَلْتُكَ عَنْ أَتْبَاعِهِ أَضُعَفَاؤُهُمْ أَمْ أَشْرَافُهُمْ؟ فَقُلْتَ: بَلْ ضُعَفَاؤُهُمْ، وَهُمْ أَتْبَاعُ الرُّسُلِ، وَسَأَلْتُكَ هَلْ كُنْتُمْ تَتَّهِمُونَهُ بِالْكَذِبِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ مَا قَالَ؟ فَزَعَمْتَ أَنْ لَا، فَعَرَفْتُ أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ لِيَدَعَ الْكَذِبَ عَلَى النَّاسِ، ثُمَّ يَذْهَبَ فَيَكْذِبَ عَلَى اللَّهِ، وَسَأَلْتُكَ هَلْ يَرْتَدُّ أَحَدٌ مِنْهُمْ عَنْ دِينِهِ بَعْدَ أَنْ يَدْخُلَ فِيهِ سَخْطَةً لَهُ؟ فَزَعَمْتَ أَنْ لَا، وَكَذَلِكَ الْإِيمَانُ إِذَا خَالَطَ بَشَاشَةَ الْقُلُوبِ، وَسَأَلْتُكَ هَلْ يَزِيدُونَ أَمْ يَنْقُصُونَ؟ فَزَعَمْتَ أَنَّهُمْ يُزِيدُونَ، وَكَذَلِكَ الْإِيمَانُ حَتَّى يَتِمَّ، وَسَأَلْتُكَ هَلْ قَاتَلْتُمُوهُ؟ فَزَعَمْتَ أَنَّكُمْ قَاتَلْتُمُوهُ، فَتَكُونُ الْحَرْبُ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُ سِجَالًا، يَنَالُ مِنْكُمْ، وَتَنَالُونَ مِنْهُ، وَكَذَلِكَ الرُّسُلُ تُبْتَلَى، ثُمَّ تَكُونُ لَهُمُ الْعَاقِبَةُ، وَسَأَلْتُكَ هَلْ يَغْدِرُ؟ فَزَعَمْتَ أَنَّهُ لَا يَغْدِرُ، وَكَذَلِكَ الرُّسُلُ لَا تَغْدِرُ، وَسَأَلْتُكَ هَلْ قَالَ أَحَدٌ هَذَا الْقَوْلَ قَبْلَهُ؟ فَزَعَمْتَ أَنْ لَا، فَقُلْتُ: لَوْ كَانَ قَالَ هَذَا الْقَوْلَ أَحَدٌ قَبْلَهُ، قُلْتُ رَجُلٌ ائْتَمَّ بِقَوْلٍ قِيلَ قَبْلَهُ، قَالَ: ثُمَّ قَالَ: بِمَ يَأْمُرُكُمْ؟ قَالَ: قُلْتُ: يَأْمُرُنَا بِالصَّلَاةِ، وَالزَّكَاةِ، وَالصِّلَةِ، وَالْعَفَافِ، قَالَ: إِنْ يَكُ مَا تَقُولُ فِيهِ حَقًّا، فَإِنَّهُ نَبِيٌّ، وَقَدْ كُنْتُ أَعْلَمُ أَنَّهُ خَارِجٌ، وَلَمْ أَكُ أَظُنُّهُ مِنْكُمْ، وَلَوْ أَنِّي أَعْلَمُ أَنِّي أَخْلُصُ إِلَيْهِ، لَأَحْبَبْتُ لِقَاءَهُ، وَلَوْ كُنْتُ عِنْدَهُ لَغَسَلْتُ عَنْ قَدَمَيْهِ، وَلَيَبْلُغَنَّ مُلْكُهُ مَا تَحْتَ قَدَمَيَّ، قَالَ ثُمَّ دَعَا بِكِتَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَرَأَهُ، فَإِذَا فِيهِ" بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللَّهِ إِلَى هِرَقْلَ عَظِيمِ الرُّومِ، سَلَامٌ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى، أَمَّا بَعْدُ، فَإِنِّي أَدْعُوكَ بِدِعَايَةِ الْإِسْلَامِ، أَسْلِمْ تَسْلَمْ، وَأَسْلِمْ يُؤْتِكَ اللَّهُ أَجْرَكَ مَرَّتَيْنِ، فَإِنْ تَوَلَّيْتَ، فَإِنَّ عَلَيْكَ إِثْمَ الْأَرِيسِيِّينَ، وَيَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ، أَنْ لَا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ، إِلَى قَوْلِهِ: اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ قِرَاءَةِ الْكِتَابِ، ارْتَفَعَتِ الْأَصْوَاتُ عِنْدَهُ، وَكَثُرَ اللَّغَطُ، وَأُمِرَ بِنَا فَأُخْرِجْنَا، قَالَ فَقُلْتُ لِأَصْحَابِي حِينَ خَرَجْنَا: لَقَدْ أَمِرَ أَمْرُ ابْنِ أَبِي كَبْشَةَ، إِنَّهُ لَيَخَافُهُ مَلِكُ بَنِي الْأَصْفَرِ، فَمَا زِلْتُ مُوقِنًا بِأَمْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ سَيَظْهَرُ، حَتَّى أَدْخَلَ اللَّهُ عَلَيَّ الْإِسْلَامَ، قَالَ الزُّهْرِيُّ: فَدَعَا هِرَقْلُ عُظَمَاءَ الرُّومِ، فَجَمَعَهُمْ فِي دَارٍ لَهُ، فَقَالَ: يَا مَعْشَرَ الرُّومِ، هَلْ لَكُمْ فِي الْفَلَاحِ وَالرَّشَدِ آخِرَ الْأَبَدِ؟ وَأَنْ يَثْبُتَ لَكُمْ مُلْكُكُمْ؟ قَالَ: فَحَاصُوا حَيْصَةَ حُمُرِ الْوَحْشِ إِلَى الْأَبْوَابِ، فَوَجَدُوهَا قَدْ غُلِّقَتْ، فَقَالَ: عَلَيَّ بِهِمْ فَدَعَا بِهِمْ، فَقَالَ: إِنِّي إِنَّمَا اخْتَبَرْتُ شِدَّتَكُمْ عَلَى دِينِكُمْ، فَقَدْ رَأَيْتُ مِنْكُمُ الَّذِي أَحْبَبْتُ، فَسَجَدُوا لَهُ وَرَضُوا عَنْهُ.
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام نے، ان سے معمر نے (دوسری سند) امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ اور مجھ سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم کو عبدالرزاق نے خبر دی، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، ان سے امام زہری نے بیان کیا، انہیں عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے خبر دی، کہا کہ مجھ سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے منہ در منہ بیان کیا، انہوں نے بتلایا کہ جس مدت میں میرے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان صلح (صلح حدیبیہ کے معاہدہ کے مطابق) تھی، میں (سفر تجارت پر شام میں) گیا ہوا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خط ہرقل کے پاس پہنچا۔ انہوں نے بیان کیا کہ دحیہ الکلبی رضی اللہ عنہ وہ خط لائے تھے اور عظیم بصریٰ کے حوالے کر دیا تھا اور ہرقل کے پاس اسی سے پہنچا تھا۔ ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہرقل نے پوچھا کیا ہمارے حدود سلطنت میں اس شخص کی قوم کے بھی کچھ لوگ ہیں جو نبی ہونے کا دعویدار ہے؟ درباریوں نے بتایا کہ جی ہاں موجود ہیں۔ ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر مجھے قریش کے چند دوسرے آدمیوں کے ساتھ بلایا گیا۔ ہم ہرقل کے دربار میں داخل ہوئے اور اس کے سامنے ہمیں بٹھا دیا گیا۔ اس نے پوچھا، تم لوگوں میں اس شخص سے زیادہ قریبی کون ہے جو نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے؟ ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے کہا کہ میں زیادہ قریب ہوں۔ اب درباریوں نے مجھے بادشاہ کے بالکل قریب بٹھا دیا اور میرے دوسرے ساتھیوں کو میرے پیچھے بٹھا دیا۔ اس کے بعد ترجمان کو بلایا اور اس سے ہرقل نے کہا کہ انہیں بتاؤ کہ میں اس شخص کے بارے میں تم سے کچھ سوالات کروں گا، جو نبی ہونے کا دعویدار ہے، اگر یہ (یعنی ابوسفیان رضی اللہ عنہ) جھوٹ بولے تو تم اس کے جھوٹ کو ظاہر کر دینا۔ ابوسفیان رضی اللہ عنہ کا بیان تھا کہ اللہ کی قسم! اگر مجھے اس کا خوف نہ ہوتا کہ میرے ساتھی کہیں میرے متعلق جھوٹ بولنا نقل نہ کر دیں تو میں (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں) ضرور جھوٹ بولتا۔ پھر ہرقل نے اپنے ترجمان سے کہا کہ اس سے پوچھو کہ جس نے نبی ہونے کا دعویٰ کیا ہے وہ اپنے نسب میں کیسے ہیں؟ ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے بتلایا کہ ان کا نسب ہم میں بہت ہی عزت والا ہے۔ اس نے پوچھا کیا ان کے باپ دادا میں کوئی بادشاہ بھی ہوا ہے؟ بیان کیا کہ میں نے کہا، نہیں۔ اس نے پوچھا، تم نے دعویٰ نبوت سے پہلے کبھی ان پر جھوٹ کی تہمت لگائی تھی؟ میں نے کہا نہیں۔ پوچھا ان کی پیروی معزز لوگ زیادہ کرتے ہیں یا کمزور؟ میں نے کہا کہ قوم کے کمزور لوگ زیادہ ہیں۔ اس نے پوچھا، ان کے ماننے والوں میں زیادتی ہوتی رہتی ہے یا کمی؟ میں نے کہا کہ نہیں بلکہ زیادتی ہوتی رہتی ہے۔ پوچھا کبھی ایسا بھی کوئی واقعہ پیش آیا ہے کہ کوئی شخص ان کے دین کو قبول کرنے کے بعد پھر ان سے بدگمان ہو کر ان سے پھر گیا ہو؟ میں نے کہا ایسا بھی کبھی نہیں ہوا۔ اس نے پوچھا، تم نے کبھی ان سے جنگ بھی کی ہے؟ میں نے کہا کہ ہاں۔ اس نے پوچھا، تمہاری ان کے ساتھ جنگ کا کیا نتیجہ رہا؟ میں نے کہا کہ ہماری جنگ کی مثال ایک ڈول کی ہے کہ کبھی ان کے ہاتھ میں اور کبھی ہمارے ہاتھ میں۔ اس نے پوچھا، کبھی انہوں نے تمہارے ساتھ کوئی دھوکا بھی کیا؟ میں نے کہا کہ اب تک تو نہیں کیا، لیکن آج کل بھی ہمارا ان سے ایک معاہدہ چل رہا ہے، نہیں کہا جا سکتا کہ اس میں ان کا طرز عمل کیا رہے گا۔ ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اللہ کی قسم! اس جملہ کے سوا اور کوئی بات میں اس پوری گفتگو میں اپنی طرف سے نہیں ملا سکا، پھر اس نے پوچھا اس سے پہلے بھی یہ دعویٰ تمہارے یہاں کسی نے کیا تھا؟ میں نے کہا کہ نہیں۔ اس کے بعد ہرقل نے اپنے ترجمان سے کہا، اس سے کہو کہ میں نے تم سے نبی کے نسب کے بارے میں پوچھا تو تم نے بتایا کہ وہ تم لوگوں میں باعزت اور اونچے نسب کے سمجھے جاتے ہیں، انبیاء کا بھی یہی حال ہے۔ ان کی بعثت ہمیشہ قوم کے صاحب حسب و نسب خاندان میں ہوتی ہے اور میں نے تم سے پوچھا تھا کہ کیا کوئی ان کے باپ دادوں میں بادشاہ گزرا ہے، تو تم نے اس کا انکار کیا میں اس سے اس فیصلہ پر پہنچا کہ اگر ان کے باپ دادوں میں کوئی بادشاہ گزرا ہوتا تو ممکن تھا کہ وہ اپنی خاندانی سلطنت کو اس طرح واپس لینا چاہتے ہوں اور میں نے تم سے ان کی اتباع کرنے والوں کے متعلق پوچھا کہ آیا وہ قوم کے کمزور لوگ ہیں یا اشراف، تو تم نے بتایا کہ کمزور لوگ ان کی پیروی کرنے والوں میں (زیادہ) ہیں۔ یہی طبقہ ہمیشہ سے انبیاء کی اتباع کرتا رہا ہے اور میں نے تم سے پوچھا تھا کہ کیا تم نے دعویٰ نبوت سے پہلے ان پر جھوٹ کا کبھی شبہ کیا تھا، تو تم نے اس کا بھی انکار کیا۔ میں نے اس سے یہ سمجھا کہ جس شخص نے لوگوں کے معاملہ میں کبھی جھوٹ نہ بولا ہو، وہ اللہ کے معاملے میں کس طرح جھوٹ بول دے گا اور میں نے تم سے پوچھا تھا کہ ان کے دین کو قبول کرنے کے بعد پھر ان سے بدگمان ہو کر کوئی شخص ان کے دین سے کبھی پھرا بھی ہے، تو تم نے اس کا بھی انکار کیا۔ ایمان کا یہی اثر ہوتا ہے جب وہ دل کی گہرائیوں میں اتر جائے۔ میں نے تم سے پوچھا تھا کہ ان کے ماننے والوں کی تعداد بڑھتی رہتی ہے یا کم ہوتی ہے، تو تم نے بتایا کہ ان میں اضافہ ہی ہوتا ہے، ایمان کا یہی معاملہ ہے، یہاں تک کہ وہ کمال کو پہنچ جائے۔ میں نے تم سے پوچھا تھا کہ کیا تم نے کبھی ان سے جنگ بھی کی ہے؟ تو تم نے بتایا کہ جنگ کی ہے اور تمہارے درمیان لڑائی کا نتیجہ ایسا رہا ہے کہ کبھی تمہارے حق میں اور کبھی ان کے حق میں۔ انبیاء کا بھی یہی معاملہ ہے، انہیں آزمائش میں ڈالا جاتا ہے اور آخر انجام انہیں کے حق میں ہوتا ہے اور میں نے تم سے پوچھا تھا کہ اس نے تمہارے ساتھ کبھی خلاف عہد بھی معاملہ کیا ہے تو تم نے اس سے بھی انکار کیا۔ انبیاء کبھی عہد کے خلاف نہیں کرتے اور میں نے تم سے پوچھا تھا کہ کیا تمہارے یہاں اس طرح کا دعویٰ پہلے بھی کسی نے کیا تھا تو تم نے کہا کہ پہلے کسی نے اس طرح کا دعویٰ نہیں کیا، میں اس سے اس فیصلے پر پہنچا کہ اگر کسی نے تمہارے یہاں اس سے پہلے اس طرح کا دعویٰ کیا ہوتا تو یہ کہا جا سکتا تھا کہ یہ بھی اسی کی نقل کر رہے ہیں۔ بیان کیا کہ پھر ہرقل نے پوچھا وہ تمہیں کن چیزوں کا حکم دیتے ہیں؟ میں نے کہا نماز، زکوٰۃ، صلہ رحمی اور پاکدامنی کا۔ آخر اس نے کہا کہ جو کچھ تم نے بتایا ہے اگر وہ صحیح ہے تو یقیناً وہ نبی ہیں اس کا علم تو مجھے بھی تھا کہ ان کی نبوت کا زمانہ قریب ہے لیکن یہ خیال نہ تھا کہ وہ تمہاری قوم میں ہوں گے۔ اگر مجھے ان تک پہنچ سکنے کا یقین ہوتا تو میں ضرور ان سے ملاقات کرتا اور اگر میں ان کی خدمت میں ہوتا تو ان کے قدموں کو دھوتا اور ان کی حکومت میرے ان دو قدموں تک پہنچ کر رہے گی۔ ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط منگوایا اور اسے پڑھا، اس میں یہ لکھا ہوا تھا، اللہ، رحمن، رحیم کے نام سے شروع کرتا ہوں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے عظیم روم ہرقل کی طرف، سلامتی ہو اس پر جو ہدایت کی اتباع کرے۔ امابعد! میں تمہیں اسلام کی طرف بلاتا ہوں، اسلام لاؤ تو سلامتی پاؤ گے اور اسلام لاؤ تو اللہ تمہیں دوہرا اجر دے گا۔ لیکن تم نے اگر منہ موڑا تو تمہاری رعایا (کے کفر کا بار بھی سب) تم پر ہو گا اور اے کتاب والو! ایک ایسی بات کی طرف آ جاؤ جو ہم میں اور تم میں برابر ہے، وہ یہ کہ ہم سوائے اللہ کے اور کسی کی عبادت نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان «اشهدوا بأنا مسلمون‏» تک جب ہرقل خط پڑھ چکا تو دربار میں بڑا شور برپا ہو گیا اور پھر ہمیں دربار سے باہر کر دیا گیا۔ باہر آ کر میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ابن ابی کبشہ کا معاملہ تو اب اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ ملک بنی الاصفر (ہرقل) بھی ان سے ڈرنے لگا۔ اس واقعہ کے بعد مجھے یقین ہو گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غالب آ کر رہیں گے اور آخر اللہ تعالیٰ نے اسلام کی روشنی میرے دل میں بھی ڈال ہی دی۔ زہری نے کہا کہ پھر ہرقل نے روم کے سرداروں کو بلا کر ایک خاص کمرے میں جمع کیا، پھر ان سے کہا اے رومیو! کیا تم ہمیشہ کے لیے اپنی فلاح اور بھلائی چاہتے ہو اور یہ کہ تمہارا ملک تمہارے ہی ہاتھ میں رہے (اگر تم ایسا چاہتے ہو تو اسلام قبول کر لو) راوی نے بیان کیا کہ یہ سنتے ہی وہ سب وحشی جانوروں کی طرح دروازے کی طرف بھاگے، دیکھا تو دروازہ بند تھا، پھر ہرقل نے سب کو اپنے پاس بلایا کہ انہیں میرے پاس لاؤ اور ان سے کہا کہ میں نے تو تمہیں آزمایا تھا کہ تم اپنے دین میں کتنے پختہ ہو، اب میں نے اس چیز کا مشاہدہ کر لیا جو مجھے پسند تھی۔ چنانچہ سب درباریوں نے اسے سجدہ کیا اور اس سے راضی ہو گئے۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4553 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4553  
حدیث حاشیہ:
یہ طویل حدیث یہاں صرف اس لیے لائی گئی ہے کہ اس میں آپﷺ کے نامہ مبارک کا ذکر ہے جس میں آپ ﷺ نے اہل کتاب کو آیت ﴿يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ﴾ (آل عمران: 64)
کے ذریعہ دعوت اسلام پیش کی تھی۔
مگر افسوس کہ ہرقل حقیقت جان کر بھی اسلام نہ لا سکا اور قومی عار پر اس نے نارِدوزخ کو اختیار کیا۔
بیشتر دنیا داروں کا یہی حال رہا ہے کہ وہ دنیاوی عار کی وجہ سے حق سے دور رہے ہیں یا باوجودیکہ دل سے حق کو حق جانتے ہیں۔
اس طویل حدیث سے بہت سے مسائل کا استخراج ہوتا ہے، جس کے لیے فتح الباری کا مطالعہ ضروری ہے۔
ابوکبشہ آپ ﷺ کی انا حلیمہ دائی کے شوہرکا نام تھا۔
اس لیے قریش آپ ﷺ کو ابوکبشہ سے نسبت دینے لگے تھے کہ وہ آپ ﷺ کا رضاعی باپ تھا۔
اس سے یہ ثابت ہوا کہ ہرقل مسلمان نہیں ہوا تھا۔
گو دل سے تصدیق کرتا تھا مگر آنحضرتﷺ نے خود فرمایا کہ وہ نصرانی ہے، اسلام قبول کرنے کے لیے ظاہر وباطن ہر دو طرح سے مسلمان ہونا ضروری ہے كَلِمَةٍ سوآء کے بارے میں حضرت حافظ صاحب فرماتے ہیں۔
أَنَّ الْمُرَادَ بِالْكَلِمَةِ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَعَلَى ذَلِكَ يدل سِيَاق الْآيَة الَّذِي تضمنه قَوْله أَن لانعبد إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ فَإِنَّ جَمِيعَ ذَلِكَ دَاخِلٌ تَحْتَ كَلِمَةِ الْحَقِّ وَهِيَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَالْكَلِمَةُ عَلَى هَذَا بِمَعْنَى الْكَلَامِ وَذَلِكَ سَائِغٌ فِي اللُّغَةِ فَتُطْلَقُ الْكَلِمَةُ عَلَى الْكَلِمَاتِ لِأَنَّ بَعْضَهَا ارْتَبَطَ بِبَعْضٍ فَصَارَتْ فِي قُوَّةِ الْكَلِمَةِ الْوَاحِدَةِ بِخِلَافِ اصْطِلَاحِ النُّحَاةِ فِي تَفْرِيقِهِمْ بَيْنَ الْكَلِمَةِ وَالْكَلَامِ (فتح الباری)
خلاصہ یہی ہے کہ کلمہ سواء سے مراد لااله الا اللہ ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4553   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4553  
حدیث حاشیہ:

اس حدیث کا عنوان سے یہ تعلق ہے کہ اس میں رسول اللہ ﷺ کے اس آیت پر عمل کرنے کا ذکر ہے جیسے امام بخاری ؒ نے عنوان میں ذکر کیا ہے مختلف بادشاہوں کو جو دعوتی خطوط لکھے گئے ان میں اسی آیت کو بنیاد بنا کر رسول ﷺ نے دعوت حق دی۔

اس حدیث سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ہرقل بالکل صحیح نتیجے پر پہنچ گیا تھا مگر اس کے درباریوں کے سامنے اس کی کوئی پیش نہ چل سکی، اور اتنی جراءت ایمانی اس میں نہ تھی کہ وہ اپنی حکومت کوخیر آباد کہہ کرمسلمان ہوجاتا اور دنیا وآخرت کی سعادت حاصل کرلیتا۔
یہی وہ کلمہ سواء یا کلمہ توحید ہے جس کا ذکر ہرالہامی کتاب میں پایا جاتا ہے۔
بعد میں لوگوں نے اس میں کئی طرح کی ملاوٹ کردی جیسا کہ عیسائیوں نے بعد میں الوہیت مسیح اور عقیدہ تثلیث کا شاخسانہ کھڑاکردیا تھا۔

اس کلمہ سواء کی تین دفعات ہیں:
۔
اللہ کے سوا کسی کو عبادت نہ کریں۔
کسی دوسرے کو اللہ کے اسماء صفات اور اختیارات میں شریک نہ کریں۔
۔
کوئی شخص اللہ کو چھوڑ کر کسی دوسرے کو رب نہ بنائے۔
اس آخری دفعہ کا مطلب یہ ہےکہ اللہ کے مقابلے میں احبار ورہبان کی بات کو نہ مانا جائے۔
دورحاضر میں اتحاد بین المذاہب کا بہت چرچاہے۔
ہمارے رجحان کے مطابق اتحاد بین المذاہب کی بنیاد اگریہی کلمہ ہو، یعنی کلمہ توحید تو یہ تحریک بہت ہی بابرکت ہے، اگر اس کے علاوہ کسی اور بات کو اس کی بنیاد قراردیا گیا ہے تویہ اتحاد کی تحریک نہیں بلکہ اسلام کو نیچا دکھانے کی سازش ہے۔
واللہ المستعان۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4553   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2978  
´نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ ایک مہینے کی راہ سے اللہ نے میرا رعب (کافروں کے دلوں میں) ڈال کر میری مدد کی ہے`
«. . . أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَخْبَرَهُ أَنَّ أَبَا سُفْيَانَ، أَخْبَرَهُ:" أَنَّ هِرَقْلَ أَرْسَلَ إِلَيْهِ وَهُمْ بِإِيلِيَاءَ، ثُمَّ دَعَا بِكِتَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ قِرَاءَةِ الْكِتَابِ كَثُرَ عِنْدَهُ الصَّخَبُ، فَارْتَفَعَتِ الْأَصْوَاتُ وَأُخْرِجْنَا، فَقُلْتُ: لِأَصْحَابِي حِينَ أُخْرِجْنَا لَقَدْ أَمِرَ أَمْرُ ابْنِ أَبِي كَبْشَةَ إِنَّهُ يَخَافُهُ مَلِكُ بَنِي الْأَصْفَرِ . . .»
. . . ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نامہ مبارک جب شاہ روم ہرقل کو ملا تو) اس نے اپنا آدمی انہیں تلاش کرنے کے لیے بھیجا۔ یہ لوگ اس وقت ایلیاء میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ آخر (طویل گفتگو کے بعد) اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نامہ مبارک منگوایا۔ جب وہ پڑھا جا چکا تو اس کے دربار میں ہنگامہ برپا ہو گیا (چاروں طرف سے) آواز بلند ہونے لگی۔ اور ہمیں باہر نکال دیا گیا۔ جب ہم باہر کر دئیے گئے تو میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ابن ابی کبشہ (مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے) کا معاملہ تو اب بہت آگے بڑھ چکا ہے۔ یہ ملک بنی اصفر (قیصر روم) بھی ان سے ڈرنے لگا ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ: 2978]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 2978 کا باب: «بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ مَسِيرَةَ شَهْرٍ»
باب اور حدیث میں مناسبت:
ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت کچھ اس طرح سے ہوگی کہ لفظی مطابقت کے لحاظ سے ابوسفیان رحمہ اللہ کا فرمان: «إنه يخافه ملك بني الأصفر» کہ یہ ملک بنی اصفر (قیصر روم) بھی ان سے ڈرتے ہیں، یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔
ابن المنیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«موضع الترجمة من خبر أبى سفيان قوله: يخافه ملك بني الأصفر [المستواري، ص: 167]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«والغرض منه هنا قوله: إنه يخاف ملك بني الأصفر [فتح الباري، ج 6، ص: 159]
یعنی ان کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ڈرنا، یہ ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت کا پہلو ہے، مزید اگر غور کیا جائے تو یہ لوگ جن کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نامہ مبارک دیا گیا تھا وہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوسوں دور تھے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«لانه كان بين المدينة و بين المكان الذى كان قيصر ينزل فيه مدة شهر أو نحوه.» [فتح الباري، ج 6، ص: 159]
یقینا مدینے اور وہ جگہ جہاں قیصر ہے دونوں میں ایک ماہ یا کچھ لگ بھگ کی مسافت ہے۔
علامہ عینی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
شام اور حجاز کے درمیان ایک ماہ یا اس سے زائد مسافت ہے۔ [عمدة القاري، ج 14، ص: 236]
بدرالدین بن جماعۃ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«مطابقة حديث أبى سفيان للترجمة قوله انه ليخافه ملك بني الأصفر صفود كان بالشام، و بين الشام و الحجاز مسيرة شهر.» [مناسبات تراجم البخاري، ص: 88]
ابوسفیان رحمہ اللہ کی حدیث میں ترجمۃ الباب سے مطابقت یہ ہے کہ ابوسفیان رحمہ اللہ نے فرمایا: «انه ليخافه ملك بني الأصفر» اور وہ شام میں تھے، شام اور حجاز کے درمیان ایک مہینے کی مسافت ہے۔
فائدہ:
ہم یہاں پر عرب کا نقشہ واضح کر رہے ہیں، نقشہ کو دیکھ کر آپ مسافت کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 434   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4607  
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے ابو سفیان نے روبرو بتایا کہ میں اس معاہدہ کے دوران جو میرے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان ہوا تھا، میں شام میں ہی تھا کہ شاہ روم کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مکتوب لایا گیا اور لانے والے دحیہ کلبی رضی اللہ تعالی عنہ تھے، اس نے اسے بصریٰ کے حاکم کے حوالہ کیا اور بصریٰ کے حاکم نے وہ ہرقل کو دے دیا تو ہرقل نے پوچھا، کیا ادھر اس آدمی کی قوم کا کوئی فرد موجود ہے،... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4607]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
فِي الْمُدَّةِ الَّتِي كَانَتْ بَيْنِي وَبَيْنَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
اس سے مراد وہ عرصہ ہے،
جس میں قریش مکہ نے حدیبیہ کے مقام پر 6ھ میں دس سال تک لڑائی نہ کرنے کی صلح کی تھی۔
(2)
هِرَقل:
مشہور قول کے مطابق،
ھاء پر زیر ہے اور را پر زبر،
قاف ساکن ہے،
اگرچہ ایک قول کے مطابق را ساکن ہے اور قاف پر زیر ہے،
یعنی هرقل اور یہ روم کے بادشاہ کا نام ہے۔
(3)
ترجمان:
امام نووی کے نزدیک تاء پر زبر اور جیم پر پیش پڑھنا بہتر ہے،
اگرچہ دونوں پر زیر اور دونوں پر پیش پڑھنا بھی درست ہے،
ترجمہ کرنے والا،
مترجم،
ایک زبان کو دوسری زبان میں منتقل کرنے والا۔
(4)
لَوْلَا مَخَافَةُ أَنْ يُؤْثَرَ عَلَيَّ الْكَذِبُ:
اگر اندیشہ نہ ہوتا کہ میری طرف سے جھوٹ نقل کیا جائے گا،
جس سے معلوم ہوتا ہے،
اسے یہ اندیشہ نہیں تھا کہ وہ اسے وہاں جھوٹا قرار دیں،
لیکن وہ یہ سمجھتا تھا کہ میں جو یہاں جھوٹی بات کہوں گا مکہ جا کر وہ اسے نقل کریں گے تو لوگ مجھے جھوٹا قرار دیں گے،
اس طرح وہ جھوٹ بولنا اپنے مقام و مرتبہ کے مناسب نہیں سمجھتا تھا،
جب اب صورت حال یہ ہے کہ مسلمان لیڈروں کا اوڑھنا بچھونا ہی جھوٹ ہے اور اس کے بغیر ان کا کام ہی نہیں چل سکتا۔
(5)
أشراف:
شريف کی جمع ہے،
مراد عمومی اور غالب صورت ہے،
کہ عام طور پر اہل نخوت اور چوہدری لوگ ابتداً انبیاء کی مخالفت کرتے ہیں،
اگرچہ کچھ ان کا ساتھ بھی دیتے ہیں۔
(6)
سخطة له:
دین کے کسی عیب یا نقص سے ناراض ہو کر مرتد ہونا،
کیونکہ کسی اور سبب سے الگ ہونا ناممکن ہے۔
(7)
تَكُونُ الْحَرْبُ بَيْنَنا وَبَيْنَهُ سِجَالً:
ا کہ ہمارے اور اس کے درمیان لڑائی کا اسلوب ڈول کھینچنے کا ہے،
کبھی وہ غالب آتا ہے،
کبھی ہم،
کیونکہ اس وقت تین عظیم جنگیں ہو چکی تھیں،
بدر،
اُحد اور خندق،
بدر میں مسلمان غالب،
اُحد میں بظاہر وہ غالب،
اگرچہ انجام کے اعتبار سے مسلمان فاتح تھے اور خندق میں کافر حملہ آور ہوئے تھے،
لیکن ناکام لوٹے تھے۔
(8)
مَا أَمْكَنَنِي مِنْ كَلِمَةٍ:
کہ مجھے کہیں ایسا موقعہ نہیں ملا،
جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کوئی عیب اور کمزوری منسوب کر سکوں،
لیکن یہاں چونکہ معاہدہ کا تعلق آئندہ زمانہ سے تھا،
اس لیے میں نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ عہد شکنی نہیں کرے گا،
اپنی لاعلمی کا اظہار کیا اور ان کے مکان رفیع کو گرانے کی کوشش کی،
لیکن ہرقل نے اس کی اس بات کی کوئی اہمیت نہیں دی،
اس لیے اپنے تبصرہ میں کہا،
تیرا خیال اور قول یہ ہے کہ وہ عہد شکنی نہیں کرتا۔
(9)
إِذاخَالَطَ بشَاشَة القُلَوب:
جب وہ دل کے انشراح اور فردت میں اتر جاتا ہے،
اس میں گھر بنا لیتا ہے تو وہ نکلتا نہیں ہے اور کوئی انسان ایمان سے پھر کر ارتداد اختیار نہیں کرتا۔
(10)
إِنْ يَكُنْ مَا تَقُولُ فِيهِ حَقًّا:
اگر تمہاری یہ باتیں سچی ہیں تو پھر یہ زمین جہاں میں کھڑا ہوں،
وہ بھی ان کے اقتدار اور حکومت میں آ جائے گی۔
ہرقل نے انتہائی بصیرت اور زیرکی سے ابو سفیان سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں انتہائی جچے تلے اور بنیادی سوالات کیے اور اس کے جوابات کی روشنی میں،
صحیح صحیح نتائج اخذ کیے اور اسے یقین ہو گیا کہ آپ واقعی نبی ہیں اور چونکہ وہ تورات اور انجیل کا ماہر تھا اور علم نجوم سے آگاہ تھا،
اس لیے اس کو پتہ چل چکا تھا کہ آخری نبی پیدا ہونے والا ہے اور آپ کی علامات سے اس کو آپ کے نبی ہونے کا یقین ہو گیا،
اس لیے اس نے آپ سے انتہائی عقیدت اور محبت کا اظہار کیا،
لیکن اقتدار کی ہوس اور خواہش نے اسے اندھا کر دیا اور آپ کے اس جملہ اسلم تسلم سے وہ یہ صحیح نتیجہ نہ نکال سکا کہ مسلمان ہونے کے بعد میری حکومت برقرار رہے گی،
اس لیے مسلمان نہ ہوا بلکہ جنگ موتہ 8ھ میں مسلمانوں کے خلاف میدان مقابلہ میں آیا اور آپ نے یہاں سے اسے دوبارہ خط لکھا،
لیکن اس نے پھر بھی اپنے اسلام کا اظہار کیا،
آپ کے جواب میں،
اپنے مسلمان ہونے کا اظہار کیا،
لیکن مسلمانوں کے مقابلہ سے پیچھے نہ ہٹا اور اپنی قوم کے سامنے اسلام کا اظہار نہ کیا،
اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اس نے جھوٹ لکھا ہے،
وہ عیسائیت پر قائم ہے۔
فوائد ومسائل:
آپﷺ نے ہرقل کے نام کو خط لکھا ہے،
اس سے پتہ چلتا ہے کہ اگر کافر کو بھی خط لکھا جائے تو اس کا آغاز بسم اللہ سے کیا جائے گا،
پھر لکھنے والا اپنا نام شروع میں لکھ دے گا تاکہ مکتوب الیہ کو پتہ چل جائے لکھنے والا کون ہے اور اس کے مطابق خط کو اہمیت دے،
نیز مکتوب الیہ کے لیے،
اس کے مقام و مرتبہ کے مطابق مناسب تعظیمی القاب لکھے جائیں گے،
تاکہ وہ شروع ہی سے نفرت و غضب کا شکار نہ ہو جائے،
اس لیے آپ نے ہرقل کے لیے عظیم الروم کے الفاظ استعمال کیے اور اس خط سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کافر کو سلام کہنے میں پہل نہیں کی جائے گی،
اکثر علماء کا یہی قول ہے اور صحیح احادیث سے اس کا تائید ہوتی ہے،
بلکہ بعض علماء کا خیال تو یہ ہے کہ بدعتی اور فاسق و فاجر کو بھی سلام نہیں کہا جائے گا اور آپﷺ نے اَسلِم تَسلَم کے الفاظ کے ذریعہ انتہائی بلیغ اور مؤثر انداز میں انتہائی جامعیت اور اختصار کے ساتھ ہر قسم کی دنیوی اور اخروی سلامتی کی ضمانت دے دی تھی اور پوری قوم کے اجروثواب کے سمیٹنے کا شوق اور ترغیب دلائی تھی،
اگر تم مسلمان ہو گئے تو تمہاری رعایا بھی تمہارے سبب مسلمان ہو جائے گی اور تمہیں اس کا اجروثواب ملے گا،
اگر تم مسلمان نہ ہوئے تو تمہارے ڈر اور خوف کی وجہ سے تمہاری کمزور رعایا جن کی اکثریت کاشتکاروں اور کسانوں پر مشتمل ہے،
وہ مسلمان نہیں ہو گی اور ان کا وبال بھی تم پر پڑے گا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خط میں اس کی طرف ایک آیت لکھی جس کے بارے میں دو نظریات ہیں۔
(1)
آپﷺ نے یہ عبارت اپنے کلام کے طور پر لکھی،
کیونکہ یہ خط آپ نے 7ھ میں لکھا جبکہ یہ آیت وفد نجران کی آمد پر 9ھ میں اتری،
گویا آپﷺ کے الفاظ آنے والی آیت کے موافق نکلے۔
(2)
یہ آیت وفد نجران کی آمد سے پہلے اتر چکی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفد کی آمد پر ان کو پڑھ کر سنائی،
اس صورت میں اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کافر کو بھی دعوت و تبلیغ کے لیے خط میں آیات قرآن لکھی جا سکتی ہیں۔
ابن ابی کبشہ سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور آپﷺ کو اس نام سے تعبیر کرنے کی مختلف وجوہ بیان کی جاتی ہیں،
(1)
ابو کبشہ آپ کے نانا یا دادا کا نام تھا اور عربوں کا یہ دستور تھا کہ جب وہ کسی کی تحقیر کرنا چاہتے تو اسے اس کے کسی غیر معروف دادے یا نانے کی طرف منسوب کرتے۔
(2)
آپﷺ کے رضاعی باپ حارث کی بیٹی کبشہ تھی،
اس لیے اسے ابو کبشہ کہا جاتا تھا۔
(3)
ابو کبشہ آپﷺﷺ کی رضاعی ماں حلیمہ کے باپ کی کنیت تھی۔
(4)
ابو کبشہ نامی ایک بت پرست شخص تھا،
جس نے اپنی قوم کے دین بت پرستی کو چھوڑ کر شعریٰ ستارہ کی پرستش شروع کر دی تھی تو گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرح اپنی قوم کا دین چھوڑ دیا،
بہرحال ابو سفیان جو اس وقت کافر تھا،
اس نے آپﷺ کی نسبت آپ کے معروف اور مشہور دادے عبدالمطلب کی بجائے کسی ایسی شخصیت کی طرف کی جو گمنام اور غیر معروف تھا،
آخر کار اللہ تعالیٰ نے اپنی توفیق سے ابو سفیان کو نوازا،
اس کے دل میں اسلام داخل کر دیا اور اسے مسلمان ہو جانے کی توفیق عنایت فرمائی اور وہ فتح مکہ کے موقعہ پر مسلمان ہو گیا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4607   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3174  
3174. حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے، انھیں ابوسفیان بن حرب ؓ نےبتایا کہ انھیں ہرقل نے قافلہ قریش کے ہمراہ بلا بھیجا۔ یہ لوگ اس وقت شام کے علاقے میں بغرض تجارت گئے ہوئےتھے جب رسول اللہ ﷺ نے کفار قریش کے ہمراہ ابو سفیان سے صلح کررکھی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3174]
حدیث حاشیہ:
یعنی صلح حدیبیہ جو6ھ میں ہوئی، یہ حدیث مفصل گزرچکی ہے۔
اس میں یہ بیان ہے کہ ہرقل نے کہا کہ پیغمبر دغا یعنی عہد شکنی نہیں کرتے، اسی سے امام بخاری نے باب کا مطلب نکالا کہ عہد کا پورا کرنا انبیاءکی خصلت ہے جو بڑی فضیلت رکھتی ہے اور عہد توڑنا دغابازی کرنا ہر شریعت میں منع ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3174   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6260  
6260. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ حضرت سفیان بن حرب ؓ نے انہیں بتایا کہ ہرقل نے قریش کے چند افراد کے ساتھ انہیں بھی بلا بھیجا یہ حضرات شام کے علاقے میں بغرض تجارت گئے تھے، چنانچہ سب لوگ ہرقل کے پاس آئے پھر پورا واقعہ بیان کیا۔ اس کے بعد اس (ہرقل) نے رسول اللہ ﷺ کا نامہ مبارک منگوایا اور اسے پڑھا۔ گیا خط کا مضمون یہ تھا «بسم اللہ الرحمن الرحیم» یہ خط محمد ﷺ کی طرف سے، جو اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہے روم کے بادشاہ ہرقل کی طرف ہے، سلام اس پر ہو جو ہدایت کے راستے پر چلنے والا ہے۔ أمابعد! [صحيح بخاري، حديث نمبر:6260]
حدیث حاشیہ:
خط لکھنے کا یہ دستور نبوی ہے جو بہت سی خوبیوں پر مشتمل ہے کاتب اور مکتوب کو کس کس طرح قلم چلانی چاہئے یہ جملہ ہدایات اس سے واضح ہے مگر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔
وفقنا اللہ لما یحب و یرضی آمین۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6260   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2804  
2804. حضرت ابن عباس ؓسے روایت ہے، انھیں حضرت ابو سفیان ؓنے خبر دی کی ہرقل نے ان سے کہا تھا: میں نے تم سے پوچھا تھا کہ ان (رسول اللہ ﷺ) کے ساتھ تمہاری لڑائیوں کا کیا انجام ہوتا ہے؟ تو تم نے جواب دیاکہ لڑائی تو ڈول کی طرح ہے، کبھی ادھر اور کبھی اُدھر۔ دراصل حضرات انبیاء ؑ کا یہ حال ہوتا ہے کہ ان کی آزمائش ہوتی رہتی ہے لیکن انجام انھی کے حق میں اچھا ہوتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2804]
حدیث حاشیہ:
یعنی یا تو مسلمان لڑتے لڑتے اپنی جان دے دے گا یا پھر فتح حاصل ہوگی۔
ایمان لانے کے بعد مسلمانوں کے لئے دونوں انجام نیک اور اچھے ہیں۔
فتح کی صورت کو تو سب اچھی سمجھتے ہیں لیکن لڑائی میں موت اور شہادت ایک مومن کا آخری مقصود ہے‘ اللہ کے راستے میں لڑتا ہے اور اپنی جان دے دیتا ہے‘ جب اللہ کی بارگاہ میں پہنچتا ہے تو اس کی نوازشیں اور ضیافتیں اسے خوب حاصل ہوتی ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2804   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2681  
2681. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: ابو سفیان ؓ سے شاہ روم ہرقل نے کہا: میں نے تجھ سے ان(رسول اللہ ﷺ) کے متعلق سوال کیا تھا کہ وہ تمھیں کس چیز کا حکم دیتے ہیں؟ تو نے کہا تھا کہ وہ ہمیں نماز، سچائی، پاک دامنی، ایفائے عہد اور امانت کی ادائیگی کا حکم دیتے ہیں۔ تو نبی کریم ﷺ کی ہی صفات ہوتی ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2681]
حدیث حاشیہ:
حضرت امام بخای ؒ خود مجتہد مطلق ہیں۔
جامع الصحیح میں جگہ جگہ آپ نے اپنے خدا داد اجتہادی ملکہ سے کام لیا ہے۔
آپ کے سامنے یہ نہیں ہوتا کہ ان کو کس مسلک کی موافقت کرنی ہے اورکس کی تردید۔
ان کے سامنے صرف کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ہوتی ہے۔
ان ہی کے تحت وہ مسائل واحکام پیش کرتے ہیں۔
وہ کسی مجتہد و امام کے مسلک کے مخالف ہوں یا موافق حضرت امام کو قطعاً یہ پرواہ نہیں ہوتی۔
پھر موجودہ دیوبندی ناشران بخاری کا کئی جگہ یہ لکھنا کہ یہاں امام بخاری ؒنے فلاں امام کا مسلک اختیار کیا ہے بالکل غلط اور حضرت امام کی شان اجتہاد میں تنقیص ہے۔
اس جگہ بھی صاحب تفہیم البخاری نے ایسا ہی الزام دہرایا ہے۔
وہ صاحب لکھتے ہیں کہ امام مالک ؒ کہتے ہیں کہ وعدہ کرنے کا حکم بھی قضا کے تحت آسکتا ہے اور امام بخاری ؒ نے بھی غالباً اس باب میں امام مالک ؒ کا مسلک اختیار کیا ہے۔
(تفہیم البخاری، پ: 10....ص: 117)
سچ ہے المرأ یقیس علی نفسه مقلدین کا چونکہ یہی رویہ ہے وہ مجتہد مطلق امام بخاری ؒ کو بھی اسی نظر سے دیکھتے ہیں جوبالکل غلط ہے۔
حضرت امام خود مجتہد مطلق ہیں۔
رحمه اللہ تعالیٰ۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2681   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2978  
2978. حضرت ابن عباس ؓسے روایت ہے انھیں حضرت ابوسفیان ؓ نے بتایا کہ (شاہ روم) ہرقل جب بیت المقدس میں تھا تو اس نے انھیں پیغام بھیجا۔ پھر اس نے رسول اللہ ﷺ کا مکتوب گرامی منگوایا۔ جب اسے پڑھ کر فارغ ہوا تو اس کے پڑھنے پر بہت شور و غل ہوا اور آوازیں بلند ہونے لگیں۔ پھر ہمیں وہاں سے نکال دیا گیا۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ابن ابوکبشہ کا معاملہ تو بہت زور پکڑگیا ہے کہ رومیوں کا بادشاہ اس سے ڈر رہا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2978]
حدیث حاشیہ:
شام کا ملک جہاں اس وقت ہرقل تھا مدینہ سے ایک مہینہ کی راہ پر ہے‘ تو باب کا مطلب نکل آیا کہ آنحضرتﷺ کا رعب ایک مہینے کی راہ سے ہرقل پر پڑا۔
آپ کے بے شمار معجزات میں سے یہ بھی آپ کا اہم معجزہ تھا۔
آپ کے دشمن جو آپ سے صدہا میلوں کے فاصلے پر رہتے تھے وہ وہاں سے ہی بیٹھے ہوئے آپ کے رعب سے مرعوب رہا کرتے تھے۔
(ﷺ)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2978   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2804  
2804. حضرت ابن عباس ؓسے روایت ہے، انھیں حضرت ابو سفیان ؓنے خبر دی کی ہرقل نے ان سے کہا تھا: میں نے تم سے پوچھا تھا کہ ان (رسول اللہ ﷺ) کے ساتھ تمہاری لڑائیوں کا کیا انجام ہوتا ہے؟ تو تم نے جواب دیاکہ لڑائی تو ڈول کی طرح ہے، کبھی ادھر اور کبھی اُدھر۔ دراصل حضرات انبیاء ؑ کا یہ حال ہوتا ہے کہ ان کی آزمائش ہوتی رہتی ہے لیکن انجام انھی کے حق میں اچھا ہوتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2804]
حدیث حاشیہ:

مسلمان لڑتے لڑتے اپنی جان،جاں آفریں کے حوالے کردیتا ہے یا فتح سے ہمکنار ہوتا ہے،اس کے لیے دونوں انجام اچھے ہیں۔
فتح کی صورت میں تو تمام لوگ اسے اچھے انجام سے تعبیر کرتے ہیں لیکن جنگ میں موت اور شہادت بھی ایک گم گشتہ سرمایہ ہے۔
جب وہ اللہ کے حضور پہنچتاہے تو اللہ کی طرف سے بہت سی نوازشات اسے حاصل ہوتی ہیں۔

امام بخاری ؒنے آیت کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے مذکورہ حدیث پیش کی ہے کہ (إِحْدَى الْحُسْنَيَيْنِ ۖ)
سے مراد فتح یا شہادت ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2804   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2978  
2978. حضرت ابن عباس ؓسے روایت ہے انھیں حضرت ابوسفیان ؓ نے بتایا کہ (شاہ روم) ہرقل جب بیت المقدس میں تھا تو اس نے انھیں پیغام بھیجا۔ پھر اس نے رسول اللہ ﷺ کا مکتوب گرامی منگوایا۔ جب اسے پڑھ کر فارغ ہوا تو اس کے پڑھنے پر بہت شور و غل ہوا اور آوازیں بلند ہونے لگیں۔ پھر ہمیں وہاں سے نکال دیا گیا۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ابن ابوکبشہ کا معاملہ تو بہت زور پکڑگیا ہے کہ رومیوں کا بادشاہ اس سے ڈر رہا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2978]
حدیث حاشیہ:
مدینہ طیبہ اور شام جہاں شاہ روم قیصر رہتا تھا کے درمیان ایک ماہ کی مسافت تھی۔
اسی طرح جب اس نے تبوک کے باڈر پر اپنی فوجیں جمع کیں اور رسول اللہ ﷺ کو علم ہوا تو آپ مدینہ طیبہ سے بھاری نفری لے کر اس کے مقابلے کے لیے نکلے۔
مدینہ طیبہ سے تبوک ایک ماہ کی مسافت پر تھا قیصر پر اس قدر رعب پڑا کہ اسے بھاگنے میں عافیت نظر آئی۔
چنانچہ وہ واپس لوٹ گیا۔
رسول اللہ ﷺ کا معجزہ تھا کہ سینکڑوں میل دور بھی دشمن آپ سے مرعوب رہتا تھا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2978   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3174  
3174. حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے، انھیں ابوسفیان بن حرب ؓ نےبتایا کہ انھیں ہرقل نے قافلہ قریش کے ہمراہ بلا بھیجا۔ یہ لوگ اس وقت شام کے علاقے میں بغرض تجارت گئے ہوئےتھے جب رسول اللہ ﷺ نے کفار قریش کے ہمراہ ابو سفیان سے صلح کررکھی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3174]
حدیث حاشیہ:

رسول اللہ ﷺ نے صلح حدیبیہ کے وقت کفار قریش سے دس سال تک جنگ بندی کا معاہدہ کیا تھا۔
اس دوران میں ابوسفیان قریشی قافلے کے ہمراہ شام کے علاقے میں گئے ہوئے تھے۔

تفصیلی روایت میں ہرقل کا یہ قول مذکور ہے۔
پیغمبر عہد شکنی نہیں کرتے۔
امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے وعدہ پوراکرنے کی فضیلت ثابت کی ہے کہ عہد کا پوراکرنا حضرات انبیاء ؑ کی خصلت ہے اور عہد شکنی ہرامت میں قبیح اور مذموم رہی ہے اور انبیائے كرام ؑ سابقین نے اس سے منع کیا ہے۔
دغا بازی اور عہد شکنی رسولوں کی صفات سے نہیں کیونکہ وہ تو ہمیشہ عہد کی پاسداری کرتے اور اسے اچھی نظر سے دیکھتے تھے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3174   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5980  
5980. حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے انہیں ابو سفیان ؓ نے بتایا کہ ہر قل نے انہیں بلا بھیجا اور ان سے کہا کہ وہ یعنی نبی ﷺ تمہیں کس چیز کا حکم دیتے ہیں؟ ابو سفیان ؓ نے کہا: وہ ہمیں نماز پڑھنے صدقہ دینے، پاک دامنی اختیار کرنے اور صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5980]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں رشتے داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرنے کا حکم عام ہے۔
اس میں مسلمان اور مشرک کا فرق نہیں کیا گیا۔
چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ تمھیں ماؤں کے متعلق حسن سلوک کی وصیت کرتا ہے۔
آپ نے یہ بات تین مرتبہ دہرائی، پھر فرمایا:
اللہ تعالیٰ تمھیں تمھارے آباؤ اجداد کے متعلق حسن سلوک کی وصیت کرتا ہے، اللہ تعالیٰ تمھیں زیادہ قریبی رشتے دار، پھر ان کے بعد دوسرے تعلق داروں کے متعلق بھی وصیت کرتا ہے۔
(سنن ابن ماجة، الأدب، حدیث: 3661)
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
آپ کہہ دیں:
میں اس کام پر تم سے کوئی معاوضہ طلب نہیں کرتا،البتہ قرابت کی محبت ضرور چاہتا ہوں۔
(الشوری42: 23)
اس آیت کریمہ سے بھی صلہ رحمی کی اہمیت کا پتا چلتا ہے، خواہ وہ رشتے دار مشرک ہی کیوں نہ ہو۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5980   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6260  
6260. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ حضرت سفیان بن حرب ؓ نے انہیں بتایا کہ ہرقل نے قریش کے چند افراد کے ساتھ انہیں بھی بلا بھیجا یہ حضرات شام کے علاقے میں بغرض تجارت گئے تھے، چنانچہ سب لوگ ہرقل کے پاس آئے پھر پورا واقعہ بیان کیا۔ اس کے بعد اس (ہرقل) نے رسول اللہ ﷺ کا نامہ مبارک منگوایا اور اسے پڑھا۔ گیا خط کا مضمون یہ تھا «بسم اللہ الرحمن الرحیم» یہ خط محمد ﷺ کی طرف سے، جو اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہے روم کے بادشاہ ہرقل کی طرف ہے، سلام اس پر ہو جو ہدایت کے راستے پر چلنے والا ہے۔ أمابعد! [صحيح بخاري، حديث نمبر:6260]
حدیث حاشیہ:
(1)
خط لکھنے کا یہ انداز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک کا ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خط کا آغاز بسم اللہ الرحمٰن الرحیم سے ہونا چاہیے، نیز کاتب کا نام پہلے اور مکتوب الیہ کا نام بعد میں لکھا جائے۔
(2)
یہ بھی معلوم ہوا کہ ایک خاص انداز سے اہل کتاب کو خط لکھتے وقت سلام لکھا جا سکتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھا کہ سلام اس شخص پر ہو جو ہدایت کی پیروی کرے۔
مطلق طور پر اہل کتاب کو سلام میں پہل نہیں کرنی چاہیے بلکہ ہدایت کی اتباع اور حق سے تمسک کے ساتھ مشروط کرکے سلام لکھا جائے۔
(فتح الباري: 58/11)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6260