صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
44. بَابُ قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: {فَإِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالاً أَوْ رُكْبَانًا فَإِذَا أَمِنْتُمْ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَمَا عَلَّمَكُمْ مَا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ} :
باب: آیت کی تفسیر ”اگر تمہیں ڈر ہو تو تم نماز پیدل ہی (پڑھ لیا کرو) یا سواری پر پڑھ لو، پھر جب تم امن میں آ جاؤ تو اللہ کو یاد کرو جس طرح اس نے تمہیں سکھایا ہے جس کو تم جانتے نہ تھے“۔
وَقَالَ ابْنُ جُبَيْرٍ: كُرْسِيُّهُ: عِلْمُهُ يُقَالُ بَسْطَةً زِيَادَةً وَفَضْلًا أَفْرِغْ أَنْزِلْ، وَلَا يَئُودُهُ: لَا يُثْقِلُهُ آدَنِي أَثْقَلَنِي وَالْآدُ وَالْأَيْدُ الْقُوَّةُ السِّنَةُ نُعَاسٌ يَتَسَنَّهْ يَتَغَيَّرْ، فَبُهِتَ: ذَهَبَتْ حُجَّتُهُ، خَاوِيَةٌ: لَا أَنِيسَ فِيهَا، عُرُوشُهَا: أَبْنِيَتُهَا نُنْشِرُهَا نُخْرِجُهَا، إِعْصَارٌ: رِيحٌ عَاصِفٌ تَهُبُّ مِنَ الْأَرْضِ إِلَى السَّمَاءِ كَعَمُودٍ فِيهِ نَارٌ , وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: صَلْدًا: لَيْسَ عَلَيْهِ شَيْءٌ , وَقَالَ عِكْرِمَةُ: وَابِلٌ: مَطَرٌ شَدِيدٌ الطَّلُّ النَّدَى وَهَذَا مَثَلُ عَمَلِ الْمُؤْمِنِ يَتَسَنَّهْ يَتَغَيَّرْ.
سعید بن جبیر نے کہا «وسع كرسيه» میں «كرسي» سے مراد پروردگار کا علم ہے۔ (یہ تاویلی مفہوم ہے احتیاط اسی میں ہے کہ ظاہر معنوں میں تسلیم کر کے حقیقت کو علم الٰہی کے حوالہ کر دیا جائے)۔ «بسطة» سے مراد زیادتی اور فضیلت ہے۔ «أفرغ» کا مطلب انزل ہے یعنی ہم پر صبر نازل فرما۔ لفظ «ولا يئوده» کا مطلب یہ کہ اس پر بار نہیں ہے۔ اسی سے لفظ «آدني» ہے یعنی مجھ کو اس نے بوجھل بنا دیا اور لفظ «آد» اور «لأيد» قوت کو کہتے ہیں۔ لفظ «السنة» اونگھ کے معنی میں ہے۔ «لم يتسنه» کا معنی نہیں بگڑا۔ لفظ «فبهت» کا معنی دلیل سے ہارے گا۔ لفظ «خاوية» یعنی خالی جہاں کوئی رفیق نہ ہو۔ لفظ «عروشها» سے مراد اس کی عمارتیں ہیں۔ «ننشرها» کے معنی ہم نکالتے ہیں۔ لفظ «إعصار» کے معنی تند ہوا جو زمین سے اٹھ کر آسمان کی طرف ایک ستون کی طرح ہو جاتی ہے۔ اس میں آگ ہوتی ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا لفظ «صلدا» یعنی چکنا صاف جس پر کچھ بھی نہ رہے اور عکرمہ نے کہا لفظ «وابل» زور کے مینہ پر بولا جاتا ہے اور لفظ «طل» کے معنی شبنم اوس کے ہیں۔ یہ مومن کے نیک عمل کی مثال ہے کہ وہ ضائع نہیں جاتا۔ «يتسنه» کے معنی بدل جائے، بگڑ جائے۔