حدیث حاشیہ: 1۔
اس حدیث میں سبیعہ بنت حارث ؓ کے ایک واقعے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ ان کا شوہر حجۃ الوداع کے موقع پر وفات پا گیا تھا اور یہ حاملہ تھیں، ابھی چار ماہ دس دن نہیں گزرے تھے کہ حمل سے فارغ ہو گئیں۔
انھوں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر مسئلہ دریافت کیا تو آپ نے فرمایا:
وضع حمل سے تمھاری عدت ختم ہو گئی۔
(سنن أبي، داود، الطلاق، حدیث: 2306) اس حدیث کا تقاضا ہے کہ جس عورت کا خاوند فوت ہوجائے اور وہ چار ماہ دس دن نہیں بلکہ وضع حمل ہےخواہ وضع حمل جلدی ہو یا وہ دیر سے بچہ جنم دے۔
2۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ سورہ بقرہ کی آیت کا حکم صرف غیر حاملہ کے لیے ہے اب تین صورتیں نکلتی ہیں۔
جس عورت کا خاوند فوت ہو جائے اور وہ حمل سے نہ ہو تو اس کی عدت چار ماہ دس دن ہے جیسا کہ سورہ بقرہ کی آیت سے معلوم ہوتا ہے۔
عورت مطلقہ ہو اور حمل سے ہو لیکن اس کا خاوند فوت نہ ہوا ہو تو اس کی عدت وضع حمل ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"حمل والی عورت کی عدت وضع حمل ہے۔
''
(الطلاق: 4/65)
جس عورت کا خاوند فوت ہو جائے اور وہ حمل سے ہو تو اس میں اختلاف ہے۔
اس کی عدت وضع حمل ہے یا أبعدالأجلین یعنی دونوں مدتوں میں سے طویل مدت؟ حضرت ابن عباس ؓ کا موقف ہے کہ اس کی عدت أبعدالأجلین ہے۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4909) ابن ابی لیلیٰ نے یہی قول حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کی طرف منسوب کیا ہے لیکن یہ صحیح نہیں کیونکہ ان کے ایک شاگرد حضرت مالک بن عامرؓ نے بیان کیا ہے کہ آپ نے فرمایا:
تم اس بیوہ پر سختی تو کرتے ہو کہ مدت حمل اگر چار ماہ دس دن سے بڑھ جائے تو عورت کے لیے یہ حکم ہے کہ وضع حمل سے پہلے اس کی عدت پوری نہیں ہو گی اور اسے رخصت نہیں دیتے کہ اگر وضع حمل چار ماہ دس دن سے کم عرصے میں ہو جائے تو وضع حمل کی عدت کو مکمل نہیں مانتے پھر فرمایا:
سورہ نساء قصری، یعنی سورہ طلاق، سورہ نساء طولی، یعنی سورہ بقرہ کے بعد نازل ہوئی ہے گویا سورہ طلاق کی آیت نے سورہ بقرہ کی آیت میں تخصیص کردی ہے۔
3۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کا قول مشہور فقہی قاعدے کی اساس ہے کہ اگر کسی مسئلے میں جہاں کہیں دو ہدایات وارد ہوں تو ان میں قابل عمل وہی ہوتی ہے جوبعد میں نازل ہوئی ہو۔
بہر حال سورہ بقرہ کی آیت234۔
اور سورہ طلاق کی آیت: 4۔
میں کوئی تعارض نہیں کیونکہ چار ماہ دس دن کی عدت ایسی عورتوں کے لیے ہے جو حمل سے نہ ہوں، اور اگر حمل ہو تو اس کی عدت وضع حمل ہے۔
واللہ اعلم۔