Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
39. بَابُ: {نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ وَقَدِّمُوا لأَنْفُسِكُمْ} الآيَةَ:
باب: آیت کی تفسیر ”تمہاری بیویاں تمہاری کھیتی ہیں، سو تم اپنے کھیت میں آؤ جس طرح سے چاہو اور اپنے حق میں آخرت کے لیے کچھ نیکیاں کرتے رہو“۔
حدیث نمبر: 4527
وَعَنْ عَبْدِ الصَّمَدِ , حَدَّثَنِي أَبِي , حَدَّثَنِي أَيُّوبُ , عَنْ نَافِعٍ , عَنْ ابْنِ عُمَرَ , فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ سورة البقرة آية 223 , قَالَ:" يَأْتِيهَا فِي"،رَوَاهُ مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ , عَنْ نَافِعٍ , عَنْ ابْنِ عُمَرَ.
اور عبدالصمد بن عبدالوارث سے روایت ہے، ان سے ان کے والد نے بیان کیا، ان سے ایوب نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ آیت «فأتوا حرثكم أنى شئتم‏» سو تم اپنے کھیت میں آؤ جس طرح چاہو۔ کے بارے میں فرمایا کہ (پیچھے سے بھی) آ سکتا ہے۔ اور اس حدیث کو محمد بن یحییٰ بن سعید بن قطان نے بھی اپنے والد سے، انہوں نے عبیداللہ سے، انہوں نے نافع سے اور انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4527 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4527  
حدیث حاشیہ:
آیت مذکورہ میں ﴿أنی شئتم﴾ سے مراد یہ ہے کہ جس طرح چاہو لٹا کر، بٹھا کر کھڑا کر کے اپنی عورت سے جماع کرسکتے ہو۔
لفظ حرثکم (کھیتی)
بتلارہاہے کہ اس سے وطی في الدبر مراد نہیں ہے کیونکہ دبر کھیتی نہیں ہے۔
یہ آیت یہودیوں کی تردید میں نازل ہوئی جو کہا کرتے تھے کہ عورت سے اگر شرمگاہ میں پیچھے سے جماع کیا جائے تو لڑکا بھینگا پیدا ہوتا ہے جن لو گوں نے اس آیت سے وطی فی الدبر کاجواز نکالا ہے ان کا یہ استدلال صحیح نہیں ہے۔
دبر میں جماع کرنے والوں پر خدا کی لعنت ہوتی ہے۔
ترمذی نے ابن عباس ؓ سے نکالا ہے کہ اللہ اس شخص کی طرف نظر رحمت نہیں کر ے گا جو کسی مرد یاعورت سے دبر میں جماع کرے۔
یہ فعل بہت گندہ اور خلاف انسانیت بھی ہے۔
اللہ پاک ہر مسلمان کو ایسے برے کام سے بچائے، آمین۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4527   

  مولانا محمد ابوالقاسم سيف بنارسي حفظ الله، دفاع بخاري، تحت الحديث صحيح بخاري 4527  
فقہ الحدیث
منکرین حدیث اعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں
قولہ: حدیث سوم: «عن ابن عمر: فاتوا حرثكم أني شئتم قال يأتيها في» اس حدیث میں امام بخاری رحمہ اللہ نے «في» کا مجرور چھوڑ دیا ہے اور وہ «دبر» ہے، اور یہ فلاں فلاں حدیث کے مخالف ہے۔
{أقول:} اے جناب! یہ حدیث نہیں ہے بلکہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کا اثر ہے اور «في» کا مجرور «دبر» نہیں ہے، بلکہ «فرج» ہے، چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ الله فتح الباری میں لکھتے ہیں کہ امام حمیدی نے اپنی کتاب «جمع بين الصحيحين» میں اس اثر کو «يأتيها فى الفرج» کے جملہ سے نقل کیا ہے اور حافظ ممدوح فرماتے ہیں کہ میں نے صغانی کے نسخہ کو دیکھا، اس میں برقانی نے «في» کا مجرور «فرج» زیادہ کیا ہے۔ ۱؎

چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ کا بھی یہی مذہب ہے اور اس حدیث میں «في» کا مجرور «فرج» ماننے کے کئی قرینے ہیں:
اول: یہ کہ اثر ابن عمر جس روایت میں «في الدبر» کی تصریح ہے، نافع نے اس روایت سے انکار کیا ہے۔ ۲؎
دوم: یہ کہ سالم بن عبداللہ نے اپنے باپ ابن عمر کے اس قول کا مطلب یہ نقل کیا ہے: «لا بأس أن يوتي فى فروجهن من أدبارهن» ۳؎ [جواھر منیفہ: 100/2]
سوم: یہ کہ سيدنا ابن عمر نے خود اس فعل سے بایں الفاظ انکار کیا ہے: «وهل يفعل ذلك أحد من المسلمين» ۴؎ (جواھر) یعنی کیا اس کو کوئی مسلمان کر سکتا ہے؟
چہارم: یہ کہ «في» کا مجرور «دبر» ماننے سے آیت «حرث لكم» کے مفاد کے خلاف ہو گا۔
پنجم: یہ کہ بقول آپ کے بہت سی احادیث کی مخالفت لازم آتی ہے۔ ۵؎
یہ سب قرائن صاف بتلاتے ہیں کہ حدیث بخاری میں «في» کا مجرور «فرج» ہے نہ «دبر» ۔

باقی رہا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے «في» کا مجرور «فرج» ذکر کیوں نہیں کر دیا؟ تو جواب اس کا یہ ہے کہ چونکہ «في» کا مجرور محض «فرج» ہی نہیں بلکہ «في فروجهن من أدبارهن» بھی ہے، اس لیے اس کے ذکر میں استکراہ سمجھا اور یہ غایت تہذیب و دانائی ہے۔ ۶؎
------------------
۱؎ لیکن بعد میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے «في» کا مجرور «فرج» نکالنے کی تردید کی ہے اور حمیدی کا «فرج» کو مجرور ذکر کرنا ان کا اپنا فہم اور صریح روایت کے مخالف قرار دیا ہے۔ [فتح الباری:189/8]
۲؎ دیکھیں: [السنن الکبریٰ للنسائی:315/5، شرح معاني الآثار:42/3]
۳؎ [تفسير البغوي:259/1 شرح معاني الآثار:42/3]
۴؎ [سنن الدارمي:277/1، شرح معاني الآثار:41/3، غريب الحديث للخطابي:400/2]
۵؎ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ «تحريم إتيان فى الدبر» کے بارے میں وارد احادیث کے متعلق لکھتے ہیں: «قلت لكن طرقها كثيرة فمجموعها صالح للاحتجاج به، ويؤيد القول بالتحريم أنا لو قدمنا أحاديث الإباحة، للزم أنه أبيح بعد أن حرم، والأصل عدمه، فمن الأحاديث الصالحة الإسناد حديث خزيمة بن ثابت أخرجه أحمد والنسائي وبن ماجة وصححه بن حبان وحديث أبى هريرة أخرجه أحمد والترمذي وصححه بن حبان أيضا وحديث بن عباس وقد تقدمت الإشارة إليه وأخرجه الترمذي من وجه آخر بلفظ لا ينظر الله إلى رجل آتي رجلا أو امرأة فى الدبر وصححه ابن حبان أيضا وإذا كان ذلك صلح أن يخصص عموم الآية.» [فتح الباري:191/8، التلخيص الحبير:179/3، إرواء الغليل:68/7، برقم:2006]
۶؎ نیز حافظ ابن حجر رحمہ اللہ مجرور کے عدم ذکر کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: «وهذا الذى استعمله البخاري، نوع من أنواع البديع يسمى الاكتفاء، ولا بدله من نكتة يحسن سببها استعماله» [فتح الباري:190/8]
   دفاع صحیح بخاری، حدیث/صفحہ نمبر: 126   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4527  
حدیث حاشیہ:

پہلی حدیث میں آیت اور اس کا سبب نزول دونوں مبہم ہیں جبکہ دوسری روایت میں آیت کی تعیین ہے لیکن "فِي" کے بعد اس کے مجرور کو حذف کردیا گیا ہے۔
امام بخاریؒ نے اس مقام پر فن بلا غت کی صنعت اکتفا کو استعمال کیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ماہ قبل کو کافی سمجھتے ہوئے کسی چیز کو مصلحت کی بنا پر حذف کردیا جائے۔
دیگر روایات سےمعلوم ہوتا ہے کہ اس مقام پر(دُبُرِهَا)
کا لفظ محذوف ہے۔
اسے حذف کرنے کی مصلحت یہ ہے کہ اس کا ذکر اس قدر قبیح ہے کہ اسے زبان یا نوک قلم پر لانا کسی کو بھی گوارا نہیں، واللہ اعلم۔

اگرچہ امام حمیدی نے اپنی تالیف (الجمع بين الصحيحين)
میں"فِي" کے بعد (اَلفَرَج)
کا ذکر کیا ہے لیکن یہ انداز ان روایات کے خلاف ہے جو حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہیں۔
ان روایات سے معلوم ہوتا کہ حضرت ابن عمرؓ پہلے وطی الدبر کے قائل تھے اس کے بعد انھوں نے اس موقف سے رجوع کر لیا تھا۔
حضرت ابن عمرؓ آیت مذکورہ کا سبب نزول بیان کرنے میں منفرد نہیں بلکہ حضرت ابو سعید خدری ؓ سے بھی اس قسم کی روایات ملتی ہیں جب حضرت ابن عباس ؓ کو حضرت ابن عمر ؓ کے متعلق معلوم ہوا تو انھوں نے اس کی تردید فرمائی چنانچہ ایک حدیث میں اس کی وضاحت ہے۔
حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں ابن عمرؓ کی اللہ تعالیٰ مغفرت کرے۔
انھیں وہم ہوا ہے دراصل قبیلہ انصار بت پرست لوگ تھے اس یہودی قبیلے کے ساتھ رہتے تھے جو کہ اہل کتاب تھے اور انصار علم کی وجہ سے ان کی برتری کے معترف تھے اور اپنے اکثر کاموں میں ان کی پیروی کیا کرتے تھے اہل کتاب کا معاملہ یہ تھا کہ لوگ اپنی بیویوں سے ایک ہی انداز میں یعنی چت لٹا کر(یا پہلو کے بل سے)
مجامعت کیا کرتے تھے اس طرح عورت بہت زیادہ پردے میں رہتی ہے۔
ان انصار نے بھی ان جیسا یہ عمل اختیار کیا ہوا تھا لیکن قبیلہ قریش والے اپنی عورتوں کو بری طرح پھیلاتے اور طرح طرح سے لطف اندزو ہوتے تھے آگے سے پیچھے سے اور چت لٹا کر بھی۔
جب مہاجرین مدینہ طیبہ آئے اور ان کے ایک آدمی نے انصار کی ایک عورت سے شادی کی تو اس کے ساتھ اپنے اسی انداز میں صحبت کرنے لگا تو عورت نے اسے بہت برا محسوس کیا اور کہنے لگی۔
ہم سے تو ایک ہی انداز میں چت لٹا کر یا پہلو کے بل سے مجامعت کی جاتی تھی سو تم بھی اسی طرح کرو۔
بصورت دیگر مجھ سے الگ رہو حتی کہ ان کا معاملہ بہت بڑھ گیا اور رسول اللہﷺ تک جا پہنچا اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:
"تمھاری عورتیں تمھاری کھیتیاں ہیں لہٰذا جس طرح تم چاہو اپنی کھیتی میں آؤ۔
" (البقرہ: 222/2)
یعنی آگے سے پیچھے سے یا چت لٹا کر لیکن جگہ وہی فرج یعنی اگلی شرم گاہ ہو۔
بہر حال بیوی سے پاخانہ کی جگہ میں مباشرت کرنا حرام اور لعنت کاکام ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"وہ شخص ملعون ہے جو اپنی بیوی کی دبر میں مباشرت کرے۔
" (مسند أحمد: 444/2)
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"اللہ تعالیٰ اس شخص کی طرف نہیں دیکھے گا جو کسی مردیا عورت کی دبر میں جنسی عمل کرے۔
" (جامع الترمذی، الرضاع، حدیث: 1165)
جب حیض کی حالت میں مجامعت کرنے کی ممانعت ہے کیونکہ اس وقت شرمگاہ محل نجاست ہوتی ہے تو جو جگہ ہمیشہ کے لیے مقام نجاست ہے وہاں مجامعت کیونکر جائز ہو سکتی ہے حضرت ابن عمرؓ سے بھی رجوع ثابت ہے، چنانچہ حافظ ابن کثیر ؒ نے یہ روایت نقل کی ہے کہ حضرت ابن عمرؓ کے سامنے وطی فی الدبر کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا:
"کیا مسلمانوں میں سے کوئی یہ عمل کرتا ہے؟'' (ابن کثیر: 272/6)
بہر حال اس سلسلے میں ہمارا موقف یہ ہے کہ حضرت ابن عمرؓ نے اس کی تفسیر میں جو کچھ فرمایاہے وہ ان کا پہلا موقف تھا جو صحیح اسناد سے ثابت ہے لیکن انھوں نے اس کے بعد رجوع کر لیا تھا جیسا کہ حدیث بالا سے معلوم ہوتا ہے۔
مذکورہ احادیث کی روشنی میں مرد کو اس برے کام سے بچنا چاہیے۔
اور عورت کو بھی چاہیے کہ اس بدترین کام کے بارے میں اپنے شوہر کی بات نہ مانے اگر وہ ایسا کرنے کا کہے تو انکار کردے۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4527   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 4526  
´تمہاری بیویاں تمہاری کھیتی ہیں`
«تَدْرِي فِيمَ أُنْزِلَتْ؟" قُلْتُ: لَا، قَالَ:" أُنْزِلَتْ فِي كَذَا وَكَذَا"، ثُمَّ مَضَى»
معلوم ہے یہ آیت کس کے بارے میں نازل ہوئی تھی؟ میں نے عرض کیا کہ نہیں، فرمایا کہ فلاں فلاں چیز (یعنی عورت سے پیچھے کی طرف سے جماع کرنے کے بارے میں) نازل ہوئی تھی اور پھر تلاوت کرنے لگے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ: 4526]
منکرین حدیث اس حدیث پر اعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حدیث سے معلوم ہوا بعض لوگ اغلام کرتے تھے۔
تبصرہ:
❀ صحیح بخاری میں لکھا ہوا ہے کہ:
«حدثني إسحاق: أخبرنا النضر بن شميل: أخبرنا ابن عون عن نافع قال: كان ابن عمر رضي الله عنهما إذا قرأ القرآن لم يتكلم حتي يفرغ منه، فأخذت عليه يومًا فقرأ سورة البقرة حتي انتهي إلى مكان قال: تدري فيما أنزلت؟ قلت: لا، قال: أنزلت فى كذا وكذا ثم مضي۔ وعن عبدالصمد: حدثني أبى: حدثني أيوب عن نافع عن ابن عمر ﴿فَأْتُوْا حَرْثَكُمْ أَنَّىٰ شِئْتُمْ﴾ قال: يأيتها فى . رواه محمد بن يحيٰي بن سعيد عن أبيه عن عبيدالله عن نافع عن ابن عمر .»
ہمیں اسحاق (بن راہویہ) نے حدیث بیان کی: ہمیں نضر بن شمیل نے خبر دی: ہمیں (عبداللہ) ابن عون نے خبر دی وہ نافع سے بیان کرتے ہیں، کہا: ابن عمر رضی اللہ عنہما جب قرآن پڑھتے تو (قرأت سے) فارغ ہونے تک کوئی کلام نہ کرتے۔ ایک دن میں نے ان کے سامنے (قرآن مجید) لیا تو آپ نے سورۃ البقرہ پڑھی، جب آپ ایک مقام پر پہنچے، فرمایا: تجھے پتا ہے یہ کس کے بارے میں نازل ہوئی ہے؟ میں نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: یہ اس اس کے بارے میں نازل ہوئی ہے، پھر آپ (تلاوت میں لگ) گئے۔
❀ عبدالصمد (بن عبدالوارث) سے روایت ہے: مجھے میرے ابا (عبدالوارث) نے حدیث بیان کی: مجھے ایوب (سختیانی) نے حدیث بیان کی وہ نافع سے وہ ابن عمر سے روایت کرتے ہیں۔ انہوں نے «فَأْتُوْا حَرْثَكُمْ أَنَّىٰ شِئْتُمْ» اپنی کھیتی کو آؤ جس طرح چاہو۔ [البقرة: 223] کی تشریح میں فرمایا:۔۔۔ میں آئے۔
❀ روایت کیا محمد بن یحییٰ بن سعید (القطان) نے اپنے والد سے انہوں نے عبیداللہ (بن عمر) سے انہوں نے نافع سے انہوں نے ابن عمر سے۔ [صحيح بخاري: 4526، 4527]
↰ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ اس روایت میں بعض لوگ اغلام کرتے تھے۔ کے الفاظ سرے سے موجود ہی نہیں ہیں، لہٰذا منکر حدیث نے صحیح بخاری پر جھوٹ بولا ہے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے اس قول کا مطلب یہ ہے کہ اپنی بیوی سے بچہ پیدا ہونے والی جگہ میں جماع کرنا چاہئیے دیکھئے: صحیح بخاری مترجم ترجمہ و تشریح محمد داود راز [100/6] مطبوعہ مکتبہ قدوسیہ لاہور، والسنن الکبریٰ للنسائی [8978 وسنده حسن، دوسرا نسخه: 8929]
↰ لہٰذا اس قول سے لواطت کا جواز ثابت کرنا بہت بڑا جھوٹ ہے۔
   ماہنامہ الحدیث حضرو ، شمارہ 24، حدیث/صفحہ نمبر: 20   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4528  
4528. حضرت جابر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: یہودی کہا کرتے تھے: اگر آدمی اپنی بیوی کے ساتھ اس کے پیچھے سے (فرج میں) مباشرت کرے تو بچہ بھینگا پیدا ہوتا ہے۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی: "تمہاری بیویاں، تمہاری کھیتی ہیں، لہذا اپنی کھیتی میں جیسے چاہو آؤ۔" [صحيح بخاري، حديث نمبر:4528]
حدیث حاشیہ:
مراد یہ ہے کہ لیٹے، بیٹھے، کھڑے جس طرح چاہو اپنی بیویوں سے جماع کرسکتے ہو۔
دبر میں جماع کرنا شرعا قطعا حرام ہے اور خلاف انسانیت۔
یہ فعل ہے جس کی مذمت میں بہت سی آحادیث وارد ہیں۔
قوم لوط کا یہ فعل تھا کہ وہ لڑکوں سے بد فعلی کرتے تھے۔
اللہ تعالیٰ نے ان پر ایسا عذاب نازل کیا کہ ان کی بستیوں کو تہ و بالا کر دیا اور ایسے بدکار وں کے لیے ان کو عبرت بنا دیا۔
آج بھی بہت سے لوگ ایسی خبیثہ عادت میں مبتلا ہو کر لعنت خدا وندی کے مستحق ہورہے ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4528   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4526  
4526. حضرت نافع سے روایت ہے، انہوں نے کہا: حضرت ابن عمر ؓ جب قرآن پڑھتے تو اس سے فارغ ہونے تک کوئی بات نہ کرتے تھے۔ ایک دن میں نے ان کے قرآن کو اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا تو انہوں نے سورہ بقرہ کی تلاوت شروع کی یہاں تک کہ وہ ایک مقام پر پہنچے۔ انہوں نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ یہ آیت کس چیز کے متعلق نازل ہوئی تھی؟میں نے کہا: نہیں۔ انہوں نے فرمایا: یہ آیت فلاں فلاں چیز کے متعلق نازل ہوئی تھی۔ پھر انہوں نے پڑھنا شروع کر دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4526]
حدیث حاشیہ:

پہلی حدیث میں آیت اور اس کا سبب نزول دونوں مبہم ہیں جبکہ دوسری روایت میں آیت کی تعیین ہے لیکن "فِي" کے بعد اس کے مجرور کو حذف کردیا گیا ہے۔
امام بخاریؒ نے اس مقام پر فن بلا غت کی صنعت اکتفا کو استعمال کیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ماہ قبل کو کافی سمجھتے ہوئے کسی چیز کو مصلحت کی بنا پر حذف کردیا جائے۔
دیگر روایات سےمعلوم ہوتا ہے کہ اس مقام پر(دُبُرِهَا)
کا لفظ محذوف ہے۔
اسے حذف کرنے کی مصلحت یہ ہے کہ اس کا ذکر اس قدر قبیح ہے کہ اسے زبان یا نوک قلم پر لانا کسی کو بھی گوارا نہیں، واللہ اعلم۔

اگرچہ امام حمیدی نے اپنی تالیف (الجمع بين الصحيحين)
میں"فِي" کے بعد (اَلفَرَج)
کا ذکر کیا ہے لیکن یہ انداز ان روایات کے خلاف ہے جو حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہیں۔
ان روایات سے معلوم ہوتا کہ حضرت ابن عمرؓ پہلے وطی الدبر کے قائل تھے اس کے بعد انھوں نے اس موقف سے رجوع کر لیا تھا۔
حضرت ابن عمرؓ آیت مذکورہ کا سبب نزول بیان کرنے میں منفرد نہیں بلکہ حضرت ابو سعید خدری ؓ سے بھی اس قسم کی روایات ملتی ہیں جب حضرت ابن عباس ؓ کو حضرت ابن عمر ؓ کے متعلق معلوم ہوا تو انھوں نے اس کی تردید فرمائی چنانچہ ایک حدیث میں اس کی وضاحت ہے۔
حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں ابن عمرؓ کی اللہ تعالیٰ مغفرت کرے۔
انھیں وہم ہوا ہے دراصل قبیلہ انصار بت پرست لوگ تھے اس یہودی قبیلے کے ساتھ رہتے تھے جو کہ اہل کتاب تھے اور انصار علم کی وجہ سے ان کی برتری کے معترف تھے اور اپنے اکثر کاموں میں ان کی پیروی کیا کرتے تھے اہل کتاب کا معاملہ یہ تھا کہ لوگ اپنی بیویوں سے ایک ہی انداز میں یعنی چت لٹا کر(یا پہلو کے بل سے)
مجامعت کیا کرتے تھے اس طرح عورت بہت زیادہ پردے میں رہتی ہے۔
ان انصار نے بھی ان جیسا یہ عمل اختیار کیا ہوا تھا لیکن قبیلہ قریش والے اپنی عورتوں کو بری طرح پھیلاتے اور طرح طرح سے لطف اندزو ہوتے تھے آگے سے پیچھے سے اور چت لٹا کر بھی۔
جب مہاجرین مدینہ طیبہ آئے اور ان کے ایک آدمی نے انصار کی ایک عورت سے شادی کی تو اس کے ساتھ اپنے اسی انداز میں صحبت کرنے لگا تو عورت نے اسے بہت برا محسوس کیا اور کہنے لگی۔
ہم سے تو ایک ہی انداز میں چت لٹا کر یا پہلو کے بل سے مجامعت کی جاتی تھی سو تم بھی اسی طرح کرو۔
بصورت دیگر مجھ سے الگ رہو حتی کہ ان کا معاملہ بہت بڑھ گیا اور رسول اللہﷺ تک جا پہنچا اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:
"تمھاری عورتیں تمھاری کھیتیاں ہیں لہٰذا جس طرح تم چاہو اپنی کھیتی میں آؤ۔
" (البقرہ: 222/2)
یعنی آگے سے پیچھے سے یا چت لٹا کر لیکن جگہ وہی فرج یعنی اگلی شرم گاہ ہو۔
بہر حال بیوی سے پاخانہ کی جگہ میں مباشرت کرنا حرام اور لعنت کاکام ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"وہ شخص ملعون ہے جو اپنی بیوی کی دبر میں مباشرت کرے۔
" (مسند أحمد: 444/2)
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"اللہ تعالیٰ اس شخص کی طرف نہیں دیکھے گا جو کسی مردیا عورت کی دبر میں جنسی عمل کرے۔
" (جامع الترمذی، الرضاع، حدیث: 1165)
جب حیض کی حالت میں مجامعت کرنے کی ممانعت ہے کیونکہ اس وقت شرمگاہ محل نجاست ہوتی ہے تو جو جگہ ہمیشہ کے لیے مقام نجاست ہے وہاں مجامعت کیونکر جائز ہو سکتی ہے حضرت ابن عمرؓ سے بھی رجوع ثابت ہے، چنانچہ حافظ ابن کثیر ؒ نے یہ روایت نقل کی ہے کہ حضرت ابن عمرؓ کے سامنے وطی فی الدبر کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا:
"کیا مسلمانوں میں سے کوئی یہ عمل کرتا ہے؟'' (ابن کثیر: 272/6)
بہر حال اس سلسلے میں ہمارا موقف یہ ہے کہ حضرت ابن عمرؓ نے اس کی تفسیر میں جو کچھ فرمایاہے وہ ان کا پہلا موقف تھا جو صحیح اسناد سے ثابت ہے لیکن انھوں نے اس کے بعد رجوع کر لیا تھا جیسا کہ حدیث بالا سے معلوم ہوتا ہے۔
مذکورہ احادیث کی روشنی میں مرد کو اس برے کام سے بچنا چاہیے۔
اور عورت کو بھی چاہیے کہ اس بدترین کام کے بارے میں اپنے شوہر کی بات نہ مانے اگر وہ ایسا کرنے کا کہے تو انکار کردے۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4526   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4528  
4528. حضرت جابر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: یہودی کہا کرتے تھے: اگر آدمی اپنی بیوی کے ساتھ اس کے پیچھے سے (فرج میں) مباشرت کرے تو بچہ بھینگا پیدا ہوتا ہے۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی: "تمہاری بیویاں، تمہاری کھیتی ہیں، لہذا اپنی کھیتی میں جیسے چاہو آؤ۔" [صحيح بخاري، حديث نمبر:4528]
حدیث حاشیہ:

ظاہری طور پر یوں محسوس ہوتا ہے کہ حدیث حضرت ابن عمر ؓ کی حدیث کے مطابق ہے لیکن حقیقت کے اعتبار سے ایسا نہیں ہے کیونکہ ایک روایت میں وضاحت ہے کہ جب آدمی پچھلی جانب سے اس کی فرج میں مجامعت کرے تو یہودی کہتے تھے کہ اس سے بچہ بھینگا پیدا ہوگا ایک روایت میں ہے کہ اسے حمل ہو جائے۔
(صحیح مسلم، النکاح، حدیث: 3536۔
(1435)
حمل ہونے کے الفاظ اس بات کا قرینہ ہیں کہ آدمی بیوی سے فرج میں مباشرت کرے۔
کیونکہ دبر میں مباشرت کرنے سے حمل نہیں ہوتا۔
حافظ ابن حجر ؒ نے علامہ اسماعیلی ؒ کے حوالے سے یہ الفاظ بیان کیے ہیں:
عورت کو گھٹنوں کے بل بیٹھا کر اس کی پچھلی جانب سے اس کی فرج میں مباشرت کی جائے۔
(فتح الباري: 241/8)

مختصر یہ ہے کہ مذکورہ روایات حضرت ابن عباس ؓ کی بیان کردہ آیت تفسیر کی تائید کرتی ہیں جس میں انھوں نے حضرت ابن عمرؓ کی بیان کردہ تفسیر کی تردید کی ہے۔

واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کے قول کو باطل اور ایک بے بنیاد وہم قرار دیا ہے اور میاں بیوی کو ایک دوسرے سے ہر طرح لطف اندوز ہونے کی اجازت ہے بشرطیکہ وطی فی الدبر سے گریز کیا جائے کیونکہ یہ قوم لوط کا فعل ہے اور اس پر اللہ تعالیٰ نے ایسا عذاب نازل کیا تھا کہ ان کی بستیوں کو تہ و بالا کر ڈالا، مزید یہ بھی شرط ہے کہ ایام حیض میں اس قسم کی لطف اندوزی بھی حرام ہے۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4528