صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
38. بَابُ: {أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُمْ مَثَلُ الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ مَسَّتْهُمُ الْبَأْسَاءُ وَالضَّرَّاءُ} إِلَى: {قَرِيبٌ} :
باب: آیت کی تفسیر ”کیا تم یہ گمان رکھتے ہو کہ جنت میں داخل ہو جاؤ گے، حالانکہ ابھی تم کو ان لوگوں جیسے حالات پیش نہیں آئے جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں، انہیں تنگی اور سختی پیش آئی“ آخر آیت «قريب» تک۔
حدیث نمبر: 4525
فَقَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ: مَعَاذَ اللَّهِ , وَاللَّهِ مَا وَعَدَ اللَّهُ رَسُولَهُ مِنْ شَيْءٍ قَطُّ، إِلَّا عَلِمَ أَنَّهُ كَائِنٌ قَبْلَ أَنْ يَمُوتَ، وَلَكِنْ لَمْ يَزَلِ الْبَلَاءُ بِالرُّسُلِ حَتَّى خَافُوا أَنْ يَكُونَ مَنْ مَعَهُمْ يُكَذِّبُونَهُمْ، فَكَانَتْ تَقْرَؤُهَا وَظَنُّوا أَنَّهُمْ قَدْ كُذِبُوا سورة يوسف آية 110 مُثَقَّلَةً".
انھوں نے بیان کیا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا تو کہتی تھیں اللہ کی پناہ! پیغمبر، تو جو وعدہ اللہ نے ان سے کیا ہے اس کو سمجھتے ہیں کہ وہ مرنے سے پہلے ضرور پورا ہو گا۔ بات یہ کہ ہے پیغمبروں کی آزمائش برابر ہوتی رہی ہے۔ (مدد آنے میں اتنی دیر ہوئی) کہ پیغمبر ڈر گئے۔ ایسا نہ ہو ان کی امت کے لوگ ان کو جھوٹا سمجھ لیں تو عائشہ رضی اللہ عنہا اس آیت سورۃ یوسف) کو یوں پڑھتی تھیں «وظنوا أنهم قد كذبوا» (ذال کی تشدید کے ساتھ)۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4525 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4525
حدیث حاشیہ:
تو مطلب یہ ہوگا کہ نبیوں کو یہ ڈر ہوا کہ ان کی امت کے لوگ ان کو جھوٹا کہیں گے۔
مشہور قراءت تخفیف کے ساتھ ہے۔
اس صور ت میں بعضوں نے یوں معنی کئے ہیں کہ ان کی قوم کے لوگ یہ سمجھے کہ پیغمبروں سے جو وعدہ کیا تھا وہ غلط تھا حالانکہ پیغمبروں کو اللہ کے وعدہ میں شک وشبہ نہیں ہوا کرتا وہ بہت پختہ ایمان اور یقین والے ہوتے ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4525
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4525
حدیث حاشیہ:
1۔
اس مقام پر حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت عائشہ ؓ کا کوئی فقہی اختلاف نہیں بلکہ قرآءت کے اختلاف کی وجہ سے ان دونوں کے ایک نظر یاتی موقف کی وضاحت مقصود ہے۔
یہاں ہم اس روایت کا ذکر کرنا ضروری خیال کرتے ہیں جو مفصل طور پر سورہ یوسف میں بیان ہوئی ہے۔
حضرت عروہ بن زبیرؓ نے حضرت عائشہؓ سے ﴿حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ﴾ کے متعلق دریافت کیا کہ لفظ (كُذِبُوا)
میں ذال پر شد پڑھی جائے گی یا نہیں؟ حضرت عائشہ ؓ نے جواب دیا کہ ذال کو شد کے ساتھ پڑھا جائے گا۔
اس پر انھوں نے کہا:
جب حضرات انبیاء ؑ کو یقین تھا کہ ان کی قوم انھیں جھٹلا رہی ہے تو پھر (ظَنُّوا)
کہنے کا کیا مطلب؟ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا:
”ہاں۔
“ ہاں انھیں اس بات کا پورا پورا یقین تھا (یعنی اس مقام پر ظن، یقین کے معنی میں ہے،)
میں نے عرض کی:
اگر(كُذِبُوا)
کی ذال کو شد کے بغیر پڑھیں تو کیا خرابی ہے؟ انھوں نے فرمایا:
اللہ کی پناہ! بھلا حضرات انبیاء ؑ اپنے رب کے متعلق ایسا گمان کیونکر رکھ سکتے ہیں کہ وہ ان سے اپنے وعدے کا خلاف کرے گا؟ میں نے عرض کی:
پھر اس آیت کا مطلب کیا ہے؟ انھوں نے فرمایا:
اس سے حضرات انبیاءؑ کے پیرو کار مراد ہیں جو اپنے رب پر ایمان لائے اور حضرات انبیاء ؑ کی تصدیق کی جب ان پر ایک مدت دراز تک آزمائشیں اور مصیبتیں آئیں اور اللہ کی مدد آنے میں بھی دیر ہو گئی تو ایسے حالات میں حضرات انبیاء ؑ کفار و مکذبین کے ایمان لانے سے مایوس ہو گئے اور اپنے پیرو کار اہل ایمان کے متعلق بھی گمان کرنے لگے کہ وہ بھی ہمیں جھٹلادیں گے۔
تو اس وقت فواراً اللہ کی مدد آپہنچی۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4695)
2۔
اس تفصیلی روایت سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے (كُذِبُوا)
کو شد کے بغیر پڑھنے سے انکار نہیں کیا بلکہ حضرات انبیاء ؑ کے متعلق اس موقف سے اختلاف کیا ہےکہ انھیں یہ گمان ہوا کہ ان سے اللہ تعالیٰ نے اپنی نصرت و تائید کے جو وعدے کیے تھے وہ سب جھوٹ تھے۔
(فتح الباري: 467/8)
گویا ان کے نزدیک آیت کریمہ کا ترجمہ اس طرح ہو گا۔
"جب رسول نا امید ہو گئے اور انھوں نے گمان کیا کہ ان کے ماننے والےانھیں جھٹلا رہے ہیں تو فوراً اللہ کی مدد آپہنچی۔
" 3۔
حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں:
حضرت عائشہ ؓ نے قرآءت تخفیف (ذال پر شد کے بغیر)
کا انکار کیا ہے۔
ممکن ہے کہ انھیں کسی قابل اعتبار ذریعے سے قرآءت تخفیف نہ پہنچی ہو جبکہ ائمہ کوفہ امام عاصم یحییٰ بن وثاب، امام اعمش ؒ، امام حمزہ ؒ اور امام کسائی ؒ نے اسے تخفیف سے پڑھا ہے اور اہل حجاز میں سے ابو جعفر بن قعقاع ؒ نے بھی ان حضرات کی موافقت کی ہے، نیز حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ حضرت ابن عباس ؓ حضرت عبدالرحمٰن سلمی ؓ، حسن بصری اور محمد بن کعب قرظی نے بھی اسے تخفیف سے(شد کے بغیر)
پڑھا ہے۔
(فتح الباري: 467/8)
لیکن اگر ظن بمعنی وسوسہ ہو تو تخفیف تسلیم کرنے میں کوئی حرج نہیں تب تب اس کے معنی ہوں گے:
"جب پیغمبر مایوس ہو گئے اور ان کے دل میں یہ وسوسہ آنے لگا کہ عذاب یا مدد اس دنیا میں نہیں آئے گی۔
" یعنی وسوسہ یہ تھا کہ شاید اللہ کی طرف سے وعدہ خلافی ہو۔
قرآءت تخفیف کے ایک معنی اس طرح بھی کیے گئے ہیں۔
"جب رسول مایوس ہوئے اور انھیں گمان ہوا کہ ان سے وعدہ خلافی کی گئی ہے تو فوراً ہماری مدد آپہنچی۔
یعنی حضرات انبیاء کو اپنے پیرو کاروں کے متعلق یہ گمان ہوا کہ یہ لوگ بھی جو ہم سے اظہار عقیدت کرتے ہیں ان تکلیفوں کی وجہ سے الٹے پاؤں پھر جائیں گے اور ایمان سے محروم ہو کر کفار کی طرح ان کا بھی خانہ خراب ہو جائے گا تو فوراًہماری مدد آپہنچی۔
" یہ معنی کرنے سے حضرات انبیاء ؑ کی عصمت پر بھی کوئی حرف نہیں آتا اور نہ قرآءت متواترہ ہی کے انکار کا کوئی راستہ کھلتا ہے کیونکہ یہ معنی کرنے سے کذب بیانی یا وعدہ خلافی کی نسبت اللہ کی طرف نہیں بلکہ پیروکاروں کی طرف ہوگی۔
مشہور معنی یوں کیے گئے ہیں۔
"جب رسول ناامید ہونے لگے اور ان کی قوم نے خیال کیا کہ ان سے جھوٹ کہا گیا ہے تو ہماری مدد ان کے پاس آگئی۔
" اس میں (ظَنُّوا)
کا فاعل قوم یعنی مومنین کو قرار دیا جائے۔
4۔
(لِّلَّذِينَ)
جو اس سے پہلے ہے وہ دلالت کرتا ہے کہ یہ مضمون اہل ایمان کے لیے ہے۔
انھیں اس قسم کا گمان ہونا کوئی بعید نہیں جبکہ حضرات انبیاء ؑ سے ایسا گمان محال ہے۔
چنانچہ یہ معنی حضرت سعید بن جبیر نے خود ابن عباس ؓ سے نقل کیے ہیں کہ انبیاء ؑ اپنی قوم کے ایمان لانے سے مایوس ہو گئے اور قوم نے یہ گمان کیا کہ انبیاء ؑ کے ساتھ مدد کا جو وعدہ تھا وہ صحیح نہیں تھا۔
قوم کے اس طرح گمان کرنے سے حضرات انبیاء ؑ کی عظمت پر کوئی حرف نہیں آتا۔
چونکہ یہ تو جیہ خود حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے اس لیے یہ سب تو جیہات سے راجح معلوم ہوتی ہے اور اس پر کوئی اشکال بھی نہیں رہتا۔
(فتح الباري: 468/8)
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4525