Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
37. بَابُ: {وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصَامِ} :
باب: آیت کی تفسیر ”حالانکہ وہ بہت ہی سخت قسم کا جھگڑالو ہے“۔
حدیث نمبر: 4523
حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ , حَدَّثَنَا سُفْيَانُ , عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ , عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ , عَنْ عَائِشَةَ تَرْفَعُهُ , قَالَ: أَبْغَضُ الرِّجَالِ إِلَى اللَّهِ الْأَلَدُّ الْخَصِمُ , وَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ , حَدَّثَنَا سُفْيَانُ , حَدَّثَنِي ابْنُ جُرَيْجٍ , عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ , عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ہم سے قبیصہ بن عقبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، کہا ان سے ابن جریج نے، ان سے ابن ابی ملیکہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ شخص وہ ہے جو سخت جھگڑالو ہو اور عبداللہ (عبداللہ بن ولید عدنی) نے بیان کیا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، کہا مجھ سے ابن جریج نے بیان کیا، ان سے ابن ابی ملیکہ نے، ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (وہی حدیث جو اوپر گزری)۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4523 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4523  
حدیث حاشیہ:
حضرت امام بخاری نے عبد اللہ بن ولید کی سند اس لیے بیان کیا کہ اس میں حدیث کے مرفوع ہونے کی صراحت ہے۔
یہ سفیان ثوری کی جامع میں موصول ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4523   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4523  
حدیث حاشیہ:

یہ آیت کریمہ ہر اس شخص پر صادق آتی ہے جو اسلام کو عقیدے اور منہج زندگی کی حیثیت سے قبول نہیں کرتا لیکن دنیوی مفاد کے پیش نظر اپنے مسلمان ہونے کا ڈھنڈورا پیٹتا ہے۔
اور اللہ تعالیٰ کو اپنے فعل وقول کی صداقت پر گواہ بناتا ہے حالانکہ وہ باطل کو حق دکھانے کے لیے بدترین جھگڑالو ہوتا ہے۔
حدیث میں منافق کی تین نشانیاں بیان ہوئی ہیں:
وہ جب بات کرتاہے تو جھوٹ بولتاہے، جب وہ وعدہ کرتا ہے تو خلاف ورزی کرتا ہے اور جب جھگڑتا ہے تو گالی گلوچ پر اترآتا ہے۔
(صحیح البخاری، الإیمان، حدیث: 33)

امام بخاری ؒ نے حدیث کے آخر میں ایک دوسری سند بیان کی ہے تاکہ وہ باتوں کی صراحت ہوجائے:
الف۔
یہ حدیث حقیقت کے اعتبار سے مرفوع ہے جیسا کہ جامع سفیان ثوری میں یہ موصول بیان ہوئی ہے۔
ب۔
حضرت سفیان کا اپنے استاد ابن جریج سے سماع ثابت ہے کیونکہ انھوں نے پیش کردہ روایت میں اسے بصیغہ تحدیث بیان کیا ہے۔
(فتح الباري: 236/8)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4523