Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
30. بَابُ قَوْلِهِ: {وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لاَ تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّهِ فَإِنِ انْتَهَوْا فَلاَ عُدْوَانَ إِلاَّ عَلَى الظَّالِمِينَ} :
باب: آیت کی تفسیر اور ”ان کافروں سے لڑو، یہاں تک کہ فتنہ (شرک) باقی نہ رہ جائے اور دین اللہ ہی کے لیے رہ جائے، سو اگر وہ باز آ جائیں تو سختی کسی پر بھی نہیں بجز (اپنے حق میں) ظلم کرنے والوں کے“۔
حدیث نمبر: 4515
قَالَ: فَمَا قَوْلُكَ فِي عَلِيٍّ وَعُثْمَانَ , قَالَ:" أَمَّا عُثْمَانُ , فَكَأَنَّ اللَّهَ عَفَا عَنْهُ، وَأَمَّا أَنْتُمْ فَكَرِهْتُمْ أَنْ تَعْفُوا عَنْهُ، وَأَمَّا عَلِيٌّ , فَابْنُ عَمِّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَخَتَنُهُ، وَأَشَارَ بِيَدِهِ، فَقَالَ:" هَذَا بَيْتُهُ حَيْثُ تَرَوْنَ".
‏‏‏‏ پھر اس شخص نے پوچھا اچھا یہ تو کہو کہ عثمان اور علی رضی اللہ عنہما کے بارے میں تمہارا کیا اعتقاد ہے۔ انہوں نے کہا عثمان رضی اللہ عنہ کا قصور اللہ نے معاف کر دیا لیکن تم اس معافی کو اچھا نہیں سمجھتے ہو۔ اب رہے علی رضی اللہ عنہ تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی اور آپ کے داماد تھے اور ہاتھ کے اشارے سے بتلایا کہ یہ دیکھو ان کا گھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر سے ملا ہوا ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4515 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4515  
حدیث حاشیہ:
خارجی مردود حضرت عثمان ؓ پر بہت طعن کرتے کہ وہ جنگ احد سے بھاگ نکلے تھے۔
حضرت علی ؓ کو بھی اس وجہ سے برا جانتے کہ وہ مسلمانوں سے لڑے۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے احسن طریق پر ان کا رد کیا۔
اعتراض کرنے والا خارجی مردود تھا اور آیات قرآ نی کو بے محل پیش کرتا تھا۔
ایسے لوگ بہت ہیں جو بے محل آیات کا استعمال کرکے لوگوں کے لیے گمراہی کا سبب بنتے ہیں۔
سچ ہے۔
﴿وَيَهْدِي بِهِ كَثِيرًا وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفَاسِقِينَ﴾ (البقرة: 26)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4515   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4515  
حدیث حاشیہ:

سائل کا تعلق خوارج سے تھا جوشیخین (ابوبکر ؓ وعمرؓ)
کی فضیلت کے قائل تھے لیکن (خَتَنَين)
عثمان ؓ وعلیؓ کی تنقیص کرتے تھے۔

اس خارجی نے حضرت عثمان ؓ پر یہ اعتراض کیا کہ وہ غزوہ اُحد کے دن میدان جنگ سے بھاگ گئے تھے۔
حضرت ابن عمرؓ نے اس کا جواب دیا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے انھیں معاف فرمادیا۔
" (آل عمران: 155/3)
جب اللہ تعالیٰ نے انھیں معاف کردیا ہے تو ایسے حالات میں انھیں ہدف ملامت یا نشانہ تنقید بنانے کا کیا معنی؟ اس کا مطلب ہے کہ تمھیں حضرت عثمان ؓ کے متعلق اللہ تعالیٰ کی معافی پسند نہیں آئی۔

رہ گئے حضرت علی ؓ تو وہ منزل ومنزلت کے اعتبار سے رسول اللہ ﷺ کے بہت قریب تھے کیونکہ مسجد نبوی کے جنوبی جانب حضرت عائشہ ؓ اور حضرت حفصہؓ کے حجرے تھے۔
ان کے درمیان حضرت فاطمہ ؓ کا حجرہ تھا پھر ان کے پیچھے دیگر ازواج مطہرات کے حجرے تھے۔
اگررسول اللہ ﷺ سیدنا علی ؓ سے ناراض تھے تو انھیں رہنے کے لیے اپنےقریب جگہ کیوں دی؟ لہذا خوارج کا یہ اعتراض بدنیتی پر مبنی ہے اور ان کا قرآنی استدلال بھی بے موقع اور غیرموزوں ہے۔
ایسے لوگ بہت ہیں جو بے محل قرآنی آیات کو استعمال کرکے لوگوں کی گمراہی کا سبب بنتے ہیں۔
واللہ المستعان۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4515