صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
29. بَابُ قَوْلِهِ: {وَلَيْسَ الْبِرُّ بِأَنْ تَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ ظُهُورِهَا وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقَى وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ} :
باب: آیت کی تفسیر ”اور یہ تو کوئی بھی نیکی نہیں کہ تم گھروں میں ان کی پچھلی دیوار کی طرف سے آؤ، البتہ نیکی یہ ہے کہ کوئی شخص تقویٰ اختیار کرے اور گھروں میں ان کے دروازوں سے آؤ اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم فلاح پا جاؤ“۔
حدیث نمبر: 4512
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى , عَنْ إِسْرَائِيلَ , عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ الْبَرَاءِ، قَالَ:" كَانُوا إِذَا أَحْرَمُوا فِي الْجَاهِلِيَّةِ أَتَوْا الْبَيْتَ مِنْ ظَهْرِهِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ: وَلَيْسَ الْبِرُّ بِأَنْ تَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ ظُهُورِهَا وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقَى وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا سورة البقرة آية 189".
ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ان سے اسرائیل نے، ان سے ابواسحاق نے اور ان سے براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب لوگ جاہلیت میں احرام باندھ لیتے تو گھروں میں پیچھے کی طرف سے چھت پر چڑھ کر داخل ہوتے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «وليس البر بأن تأتوا البيوت من ظهورها ولكن البر من اتقى وأتوا البيوت من أبوابها» کہ ”اور یہ نیکی نہیں ہے کہ تم گھروں میں ان کے پیچھے کی طرف سے آؤ، البتہ نیکی یہ ہے کہ کوئی شخص تقویٰ اختیار کرے اور گھروں میں ان کے دروازوں سے آؤ۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4512 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4512
حدیث حاشیہ:
عہد جاہلیت میں احرام کے بعد اگر واپسی کی ضرورت ہوتی تو لوگ دروازوں سے نہ داخل ہوتے، بلکہ پیچھے دیوار کی طرف سے آتے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4512
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4512
حدیث حاشیہ:
1۔
دورجاہلیت میں اہل عرب کا یہ دستورتھا کہ جب حج یا عمرے کا احرام باندھ لیتے، پھر اگرگھر میں آنے کی ضرورت پڑتی یا سفر حج وعمرہ سے واپس ہوتے تو اپنے گھروں میں دروازے سے آنے کی بجائے پیچھے سے دیوار پھلانگ کر اندر آتے۔
اس انداز سے گھر میں داخل ہونے کو وہ نیکی خیال کرتے تھے۔
اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں انھیں تنبیہ فرمائی ہے کہ اس قسم کی بے معنی رسومات کو نیکی سے کوئی واسطہ نہیں بلکہ اصل نیکی اللہ تعالیٰ سے ڈرنا اور اس کے احکام کی خلاف ورزی سے بچناہے۔
2۔
اس مقام پر ایک اور شرعی قانون کا پتہ چلا کہ جس چیز کو شریعت نے ضروری یا عبادت قرارنہ دیا ہو اسے اپنی طرف سے ضروری اور عبادت خیال کرلینا جائز نہیں، اسی طرح جو شرعاً جائز ہو اسے ناجائز تصور کرنا بھی گناہ ہے۔
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4512