سنن دارمي
من كتاب الطهارة
وضو اور طہارت کے مسائل
1. باب فَرْضِ الْوُضُوءِ وَالصَّلاَةِ:
وضو اور نماز کی فرضیت کا بیان
حدیث نمبر: 675
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا سَلَمَةُ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق، حَدَّثَنِي سَلَمَةُ بْنُ كُهَيْلٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْوَلِيدِ بْنِ نُوَيْفِعٍ، عَنْ كُرَيْبٍ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، قَالَ: بَعَثَ بَنُو سَعْدِ بْنِ بَكْرٍ ضِمَامَ بْنَ ثَعْلَبَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَدِمَ عَلَيْهِ، فَأَنَاخَ بَعِيرَهُ عَلَى بَابِ الْمَسْجِدِ، ثُمَّ عَقَلَهُ، ثُمَّ دَخَلَ الْمَسْجِدَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ فِي أَصْحَابِهِ، وَكَانَ ضِمَامٌ رَجُلًا جَلْدًا، أَشْعَرَ، ذَا غَدِيرَتَيْنِ، حَتَّى وَقَفَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَيُّكُمْ ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ؟، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، قَالَ: مُحَمَّدٌ؟، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: يَا ابْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، إِنِّي سَائِلُكَ وَمُغَلِّظٌ فِي الْمَسْأَلَةِ، فَلَا تَجِدَنَّ فِي نَفْسِكَ، قَالَ: لَا أَجِدُ فِي نَفْسِي، فَسَلْ عَمَّا بَدَا لَكَ، قَالَ: إِنِّي أَنْشُدُكَ بِاللَّهِ إِلَهِكَ وَإِلَهِ مَنْ هُوَ كَانَ قَبْلَكَ، وَإِلَهِ مَنْ هُوَ كَائِنٌ بَعْدَكَ، آللَّهُ بَعَثَكَ إِلَيْنَا رَسُولًا؟، قَالَ: اللَّهُمَّ نَعَمْ، قَالَ: فَأَنْشُدُكَ بِاللَّهِ إِلَهِكَ وَإِلَهِ مَنْ كَانَ قَبْلَكَ، وَإِلَهِ مَنْ هُوَ كَائِنٌ بَعْدَكَ، آللَّهُ أَمَرَكَ أَنْ نَعْبُدَهُ وَحْدَهُ لَا نُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا، وَأَنْ نَخْلَعَ هَذِهِ الْأَنْدَادَ الَّتِي كَانَتْ آبَاؤُنَا تَعْبُدُهَا مِنْ دُونِهِ؟، قَالَ: اللَّهُمَّ نَعَمْ، قَالَ: فَأَنْشُدُكَ بِاللَّهِ إِلَهِكَ وَإِلَهِ مَنْ كَانَ قَبْلَكَ، وَإِلَهِ مَنْ هُوَ كَائِنٌ بَعْدَكَ، آللَّهُ أَمَرَكَ أَنْ نُصَلِّيَ هَذِهِ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسَ؟، قَالَ: اللَّهُمَّ نَعَمْ، قَالَ: ثُمَّ جَعَلَ يَذْكُرُ فَرَائِضَ الْإِسْلَامِ فَرِيضَةً فَرِيضَةً: الزَّكَاةَ، وَالصِّيَامَ، وَالْحَجَّ، وَشَرَائِعَ الْإِسْلَامِ كُلَّهَا، وَيُنَاشِدُهُ عِنْدَ كُلِّ فَرِيضَةٍ كَمَا نَاشَدَهُ فِي الَّتِي قَبْلَهَا حَتَّى إِذَا فَرَغَ، قَالَ: فَإِنِّي أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، وَسَأُؤَدِّي هَذِهِ الْفَرِيضَةَ، وَأَجْتَنِبُ مَا نَهَيْتَنِي عَنْهُ، ثُمَّ قَالَ: لَا أَزِيدُ وَلَا أُنْقِصُ، ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى بَعِيرِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ وَلَّى: إِنْ يَصْدُقْ ذُو الْعَقِيصَتَيْنِ، يَدْخُلْ الْجَنَّةَ، فَأَتَى إِلَى بَعِيرِهِ فَأَطْلَقَ عِقَالَهُ، ثُمَّ خَرَجَ حَتَّى قَدِمَ عَلَى قَوْمِهِ فَاجْتَمَعُوا إِلَيْهِ، فَكَانَ أَوَّلَ مَا تَكَلَّمَ أَنْ قَالَ: بَئْسَتِ اللَّاتِ وَالْعُزَّى، قَالُوا: مَهْ يَا ضِمَامُ، اتَّقِ الْبَرَصَ، وَاتَّقِ الْجُنُونَ، وَاتَّقِ الْجُذَامَ، قَالَ: وَيْلَكُمْ، إِنَّهُمَا وَاللَّهِ مَا يَضُرَّانِ وَلَا يَنْفَعَانِ، إِنَّ اللَّهَ قَدْ بَعَثَ رَسُولًا، وَأَنْزَلَ عَلَيْهِ كِتَابًا اسْتَنْقَذَكُمْ بِهِ مِمَّا كُنْتُمْ فِيهِ، وَإِنِّي أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، وَقَدْ جِئْتُكُمْ مِنْ عِنْدِهِ بِمَا أَمَرَكُمْ بِهِ وَنَهَاكُمْ عَنْهُ، قَالَ: فَوَاللَّهِ مَا أَمْسَى مِنْ ذَلِكَ الْيَوْمِ وَفِي حَاضِرِهِ رَجُلٌ، وَلَا امْرَأَةٌ إِلَّا مُسْلِمًا، قَالَ: يَقُولُ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَمَا سَمِعْنَا بِوَافِدِ قَوْمٍ كَانَ أَفْضَلَ مِنْ ضِمَامِ بْنِ ثَعْلَبَةَ".
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: بنو سعد بن بکر نے سیدنا ضمام بن ثعلبۃ رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا، چنانچہ وہ آئے اور مسجد کے دروازے پر اپنے اونٹ کو بٹھایا پھر اسے باندھا پھر مسجد میں داخل ہوئے، اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے ساتھ تشریف فرما تھے، اور ضمام مضبوط آدمی، بڑے بالوں اور دو چوٹیوں والے تھے۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑے ہوئے اور کہا: تم میں سے عبدالمطلب کا بیٹا کون سا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں“، اس نے کہا: محمد؟ فرمایا: ”ہاں“، اس نے کہا: اے ابن عبد المطلب! میں آپ سے دینی مسائل دریافت کرنے والا ہوں، اور سختی سے پوچھوں گا تو آپ مجھ پر غصہ نہ کیجئے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں غصہ نہیں کروں گا جو دل چاہے پوچھے“، وہ بولا: میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں جو آپ اور آپ سے پہلے لوگوں کا اور آپ کے بعد والے لوگوں کا معبود ہے، کیا اسی اللہ نے آپ کو ہماری طرف رسول بنا کر بھیجا ہے؟ فرمایا: ”ہاں، بے شک۔“ اس نے عرض کیا: میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں جو آپ کا اور جو آپ سے پہلے تھے ان کا اور جو آپ کے بعد آنے والے ہیں ان کا معبود ہے، کیا اس اللہ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ ہم یہ پنجوقتہ نمازیں پڑھیں؟ فرمایا: ” «اللهم نعم» ہاں۔“ راوی نے کہا: پھر اسی طرح وہ فرائض اسلام روزہ اور حج و دیگر شعائر اسلام کا ایک ایک کر کے ذکر کرتا رہا اور ہر فریضہ کے پہلے قسم دلاتا تھا جیسا کہ پہلی بار کیا، پھر جب پوچھ چکا تو کہا: «اشهد ان ...» میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ بیشک محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، اور میں اس فریضے کو ادا کروں گا، اور جس چیز سے اجتناب کا آپ نے حکم دیا ہے اس سے بچوں گا، پھر عرض کیا کہ نہ اس میں زیادتی کروں گا اور نہ کمی، پھر وہ اپنے اونٹ کی طرف واپس ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر دو چوٹیوں والے نے سچ کر دکھایا تو جنت میں داخل ہو گا۔“ پھر وہ اپنے اونٹ کے پاس پہنچا اور اس کی رسی کھولی اور واپس اپنی قوم میں پہنچا تو لوگ اس کے پاس جمع ہو گئے، اور اس نے سب سے پہلی جو بات کہی تھی وہ یہ کہ لات و عزی کی بربادی ہو، انہوں نے کہا: ٹھہرو اے ضمام، کوڑھ اور پاگل پن و جذام سے ڈرو، اس نے جواب دیا: تمہاری خرابی ہو، اللہ کی قسم بیشک یہ دونوں کچھ نفع نقصان نہیں پہنچا سکتے، بیشک اللہ تعالیٰ نے ایک رسول مبعوث فرمایا ہے، اور اس کے اوپر ایک کتاب نازل فرمائی ہے، جس کے ذریعے وہ تم کو اس (نجاست) سے نکالنا چاہتا ہے، اور میں تو گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اس کے بندے اور رسول ہیں، اور میں انہیں کے پاس سے تمہارے پاس وہ چیز لے کر آیا ہوں جس کا انہوں نے تم کو حکم دیا ہے، اور جس سے انہوں نے تمہیں روکا ہے۔ راوی نے کہا: قسم الله کی اس دن شام ہونے تک کوئی مرد اور عورت ایسا نہیں تھا جو مسلمان نہ ہو گیا ہو۔ راوی نے کہا سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے تھے: ہم نے کسی قوم کے ایسے وافد و قاصد کو نہیں سنا جو ضمام بن ثعلبہ سے افضل ہو۔
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 678]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے، لیکن حدیث صحیح ہے، جیسا کہ پہلی احادیث کی تخریج میں ذکر کیا جاچکا ہے۔ نیز دیکھئے: [مجمع الزوائد 1622 تحقيق حسين سليم]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف ولكن الحديث صحيح