صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
24. بَابُ: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ} :
باب: آیت کی تفسیر ”اے ایمان والوں! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جیسا کہ ان لوگوں پر فرض کئے گئے تھے جو تم سے پہلے ہو گزرے ہیں تاکہ تم متقی بن جاؤ“۔
حدیث نمبر: 4502
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ , حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ , عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ , عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: كَانَ عَاشُورَاءُ يُصَامُ قَبْلَ رَمَضَانَ، فَلَمَّا نَزَلَ رَمَضَانُ , قَالَ:" مَنْ شَاءَ صَامَ وَمَنْ شَاءَ أَفْطَرَ".
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن عیینہ نے بیان کیا، ان سے زہری نے، ان سے عروہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ عاشوراء کا روزہ رمضان کے روزوں کے حکم سے پہلے رکھا جاتا تھا۔ پھر جب رمضان کے روزوں کا حکم نازل ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کا جی چاہے عاشوراء کا روزہ رکھے اور جس کا جی چاہے نہ رکھے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4502 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4502
حدیث حاشیہ:
رسول اللہ ﷺ مکہ مکرمہ میں عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے۔
جب آپ مدینہ تشریف لائے تویہودیوں کو دیکھا کہ وہ بھی اس دن کا روزہ رکھتے ہیں۔
آپ نے اس کی وجہ دریافت کی تو بتایا گیا کہ اس دن یہودیوں کو فرعون سے نجات ملی تھی، اس لیے وہ یوم تشکر کے طور پر اس دن کا روزہ رکھتے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"ہم ان کی بنسبت موسیٰ ؑ سے زیادہ تعلق رکھتے ہیں۔
" پھرآپ ﷺ نے اس روزے کی پابندی کی اور دوسروں کو بھی اس کا پابند کیا۔
(صحیح البخاري، الصوم، حدیث: 2004)
اور جس سال آپ کی وفات ہوئی آپ نے فرمایا:
"اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو (عاشوراء کے ساتھ)
نویں کا بھی روزہ رکھوں گا (تاکہ یہودیوں کی مخالفت ہو جائے۔
)
" لیکن عاشوراء سے پہلے آپ فوت ہوگئے۔
(صحیح مسلم، الصیام، حدیث: 2666(1134)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4502
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 252
´سفر میں روزہ رکھنے کا اختیار ہے`
«. . . 465- وبه: عن عائشة زوج النبى صلى الله عليه وسلم أن حمزة بن عمرو الأسلمي قال لرسول الله صلى الله عليه وسلم: أأصوم فى السفر؟ وكان كثير الصيام، فقال له النبى صلى الله عليه وسلم: ”إن شئت فصم، وإن شئت فأفطر .“ . . .»
”. . . نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حمزہ بن عمرو الاسلمی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں روزے رکھتا ہوں۔ کیا میں سفر میں بھی روزے رکھوں؟ وہ کثرت سے روزے رکھتے تھے۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا: ”اگر تم چاہو تو روزے رکھو اور چاہو توروزے رکھو اور چاہو تو افطار کرو۔“ . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 252]
تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1943، من حديث مالك به ورواه مسلم 1121، من حديث هشام بن عروه به]
تفقه:
➊ ہر سفر میں روزہ افطار کرنا ضروری نہیں ہے، نیز یہ کہ سفر میں نفلی روزہ رکھا جا سکتا ہے۔
➋ نیز دیکھئے: [الموطأ حديث: 50، 438]
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 465
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 547
´(روزے کے متعلق احادیث)`
سیدنا حمزہ بن عمرو اسلمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا میں سفر میں روزہ رکھنے کی طاقت رکھتا ہوں (اگر میں روزہ رکھ لوں) تو کیا مجھ پر کوئی حرج ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رخصت ہے جو اس کو لے لے تو بہتر ہے اور جو کوئی روزہ رکھنا پسند کرے تو اس پر کوئی حرج نہیں۔“ (مسلم) اور اس حدیث کا اصل سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی متفق علیہ حدیث میں یوں ہے کہ حمزہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے سوال کیا۔ [بلوغ المرام/حدیث: 547]
فائدہ 547:
مذکورہ روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ مسافر کے لیے سفر میں رمضان کا روزہ نہ رکھنا جائز ہے، تاہم دورانِ سفر میں اس کے لیے روزہ نہ رکھنا افضل اور بہتر ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ثابت ہے: ”بلاشبہ اللہ رب العزّت اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کی عطاکردہ رخصتوں کو قبول کیا جائے جس طرح وہ اس بات کو ناپسند کرتا ہے کہ اس کی معصیت ونافرمانی کا ارتکاب کیا جائے۔“ [مسند احمد: 108/4]
راوئ حدیث:
حضرت حمزہ بن عمرو اسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ حجاز کے رہنے والے صحابی ہیں جن کی کنیت ابوصالح یا ابومحمد ہے۔ ان سے ان کے فرزند محمد اور ام المؤمنین عائشہ صدیقۃ رضی اللہ تعالیٰ عنھا روایت کرتی ہیں۔ 61 ہجری میں فوت ہوے، اسوقت ان کی عمر 80 برس تھی۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 547
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2310
´اس حدیث میں ہشام بن عروہ پر راویوں کے اختلاف کا ذکر۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ حمزہ اسلمی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سفر میں روزہ رکھنے کے بارے میں پوچھا وہ ایک ایسے آدمی تھے جو مسلسل روزہ رکھتے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر چاہو تو رکھو، اور اگر چاہو تو نہ رکھو۔“ [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2310]
اردو حاشہ:
روایات کی یہ تکرار بعض اسناد باریکیوں کی وضاحت کے لیے ہوتی ہے اور محدثین کے نزدیک یہ بہت مفیس اور دلچسپ چیز کی طرف کئی مقامات پر اشارہ ہو چکا ہے۔ (مثلاً دیکھئے، حدیث: 2132)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2310
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2386
´مسلسل روزے رکھنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ حمزہ بن عمرو اسلمی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اللہ کے رسول! میں ایک ایسا آدمی ہوں جو مسلسل روزے رکھتا ہو، تو کیا سفر میں بھی روزہ رکھ سکتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر چاہو تو رکھو اور اگر چاہو تو نہ رکھو۔“ [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2386]
اردو حاشہ:
یہاں پے در پے روزوں سے پورے سال کے مسلسل روزے رکھنا مراد نہیں کیونکہ احادیث میں اس کی سخت ممانعت ہے، شرعاً ایسے روزے نا قابل اعتبار ہیں۔ مجموعی دلائل کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں سرد الصیام سے مراد مسلسل مہینہ دو مہینے روزے رکھنا ہے اور بس۔ واللہ أعلم اور اس کے جواز میں ان شاء اللہ کوئی تردد نہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2386
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2402
´سفر میں روزے رکھنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حمزہ اسلمی رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا: اللہ کے رسول! میں مسلسل روزے رکھتا ہوں تو کیا سفر میں بھی روزے رکھوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چاہو تو رکھو اور چاہو تو نہ رکھو۔“ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2402]
فوائد ومسائل:
جس سفر میں نماز قصر کرنا جائز ہے۔
اس میں مسافر کے لیے روزہ چھوڑنا بھی جائز ہے، خواہ سفر پیدل ہو یا سواری پر، اور سواری خواہ گاڑی ہو یا ہوائی جہاز وغیرہ، اور خواہ تھکاوٹ لاحق ہوتی ہو جس میں روزہ مشکل ہو یا تھکاوٹ لاحق نہ ہوتی ہو، خواہ سفر میں بھوک پیاس لگتی ہو یا نہ لگتی ہو۔
کیونکہ شریعت نے اس سفر میں نماز قصر کرنے اور روزہ چھوڑنے کی مطلقا اجازت دی ہے اور اس میں سواری کی نوعیت یا تھکاوٹ اور بھوک پیاس وغیرہ کی کوئی قید نہیں لگائی۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے رمضان میں جہاد کے سلسلہ میں آپ کے ساتھ سفر کیا تو بعض نے روزہ رکھا اور بعض نے روزہ نہیں رکھا تھا۔
اوراس کے بارے میں کسی نے بھی دوسرے پر کوئی اعتراض نہیں کیا تھا، البتہ اگر گرمی کی شدت، راستہ کی دشواری، دوری اور مسلسل سفر کی وجہ سے روزہ میں تکلیف ہو تو پھر مسافر کے لیے تاکید کے ساتھ حکم یہ ہے کہ وہ روزہ نہ رکھے، جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے، ہم میں سے بعض لوگوں نے روزہ رکھا اور بعض نے روزہ نہیں رکھا، روزہ نہ رکھنے والے ہشاش بشاش تھے اور انہوں نے کام کیا جب کہ روزہ رکھنے والے کمزوور ہو گئے تھے اور وہ بعض کام نہ کر سکے، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آج تو روزہ نہ رکھنے والوں نے اجروثواب حاصل کر لیا۔
(صحيح البخاري‘ الجهاد‘ حديث: 2890‘ وصحيح مسلم‘ الصيام‘ حديث:119) کبھی کسی ہنگامی حالت کی وجہ سے یہ واجب بھی ہو جاتا ہے کہ سفر میں روزہ نہ رکھا جائے جیسا کہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ کی طرف سفر کیا اور جب ایک جگہ پڑاؤ ڈالا تو آپ نے فرمایا: تم اپنے دشمن کے بہت قریب ہو گئے ہو اور روزہ چھوڑ دینا تمہارے لیے باعث تقویت ہو گا۔
یہ ایک رخصت تھی اس لیے ہم میں سے کچھ لوگوں نے روزہ رکھا اور کچھ نے نہ رکھا، پھر ہم نے جب ایک دوسری منزل پر پڑاؤ ڈالا تو آپ نے فرمایا: تمہاری دشمن سے مڈبھیڑ ہونے والی ہے، روزہ نہ رکھنا تمہارے لیے باعث تقویت ہو گا۔
لہذا چھوڑ دو۔
(صحيح مسلم‘ الصيام‘ حديث:1120) چونکہ آپ کی طرف سے یہ ایک تاکیدی حکم تھا اس لیے ہم سب نے روزہ چھوڑ دیا، راوی حدیث کا بیان ہے کہ اس کے بعد ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں روزے رکھے بھی تھے۔
اسی طرح حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سفر میں ایک آدمی کو دیکھا جس پر لوگ جمع ہوئے تھے اور اس پر سایہ کیا گیا تھا تو آپ نے فرمایا، کیا ماجرا ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ ایک روزے دار ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ کوئی نیکی نہیں ہے کہ تم سفر میں روزہ رکھو۔
(صحيح مسلم‘ الصيام‘ حديث: 1115) نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کی عطا کردہ رخصتوں کو قبول کر لیا جائے جس طرح وہ اس بات کو ناپسند کرتا ہے کہ اس کی معصیت و نافرمانی کا ارتکاب کیا جائے۔
(مسند أحمد:108/3) اگر روزہ رکھنے میں کوئی تکلیف نہ ہو اور کوئی روزہ رکھ لے تو اس میں کوئی حرج نہیں اور اگر تکلیف ہو تو پھر روزہ رکھنا مکروہ ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2402
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1943
1943. حضرت عائشہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ حضرت حمزہ بن عمرو اسلمی ؓ نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا کہ میں سفر میں روزہ رکھ لوں؟ اور وہ بہت روزے رکھاکرتے تھے۔ آپ نے فرمایا: ”(تمہاری مرضی ہے) چاہو تو رکھ لو چاہو تو چھوڑ دو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1943]
حدیث حاشیہ:
اس مسئلہ میں سلف کا اختلاف ہے بعضوں نے کہا کہ سفر میں اگر روزہ رکھے گا تو اس سے فرض روزہ ادا نہ ہوگا پھر قضا کرنا چاہئے اور جمہور علماءجیسے امام مالک اور شافعی اور ابوحنیفہ ؒ یہ کہتے ہیں کہ روزہ رکھنا سفر میں افضل ہے اگر طاقت ہو اور کوئی تکلیف نہ ہو اور ہمارے امام احمد بن حنبل اور اوزاعی اور اسحق اور اہل حدیث یہ کہتے ہیں کہ سفر میں روزہ نہ رکھنا افضل ہے بعض نے کہا دونوں برابر ہیں روزہ رکھے یا افطار کرے، بعض نے کہا جو زیادہ آسان ہو وہی افضل ہے۔
(وحیدی)
حافظ ابن حجر نے اس امر کی تصریح فرمائی ہے کہ حمزہ بن عمرو ؓ نے نفل روزہ کے بارے میں نہیں بلکہ رمضان شریف کے فرض روزوں ہی کے بارے میں دریافت کیا تھا فقال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم هي رخصة من اللہ فمن أخذ بها فحسن و من أحب أن یصوم فلا جناح علیه۔
(فتح الباري)
یعنی آنحضرت ﷺ نے اس کو جواب دیا کہ یہ اللہ کی طرف سے رخصت ہے جو اسے قبول کرے پس وہ بہتر ہے اور جو روزہ رکھنا ہی پسند کرے اس پر کوئی گناہ نہیں۔
حضرت علامہ ؒ فرماتے ہیں کہ لفظ رخصت واجب ہی کے مقابلہ پر بولا جاتا ہے اس سے بھی زیادہ صراحت کے ساتھ ابوداؤد اور حاکم کی روایت میں موجود ہے کہ اس نے کہا تھا کہ میں سفر میں رہتا ہوں اور ماہ رمضان حالت سفر ہی میں میرے سامنے آجاتا ہے اس سوال کے جواب میں ایسا فرمایا جو مذکور ہوا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1943
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1943
1943. حضرت عائشہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ حضرت حمزہ بن عمرو اسلمی ؓ نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا کہ میں سفر میں روزہ رکھ لوں؟ اور وہ بہت روزے رکھاکرتے تھے۔ آپ نے فرمایا: ”(تمہاری مرضی ہے) چاہو تو رکھ لو چاہو تو چھوڑ دو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1943]
حدیث حاشیہ:
(1)
اگرچہ اس روایت میں فرض روزے کی صراحت نہیں ہے، تاہم صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت حمزہ اسلمی ؓ نے عرض کی:
اللہ کے رسول! مجھے دوران سفر میں روزہ رکھنے کی طاقت ہے، اگر میں روزہ رکھ لوں تو کوئی گناہ ہو گا؟ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”یہ اللہ کی طرف سے رخصت ہے جو اسے قبول کرے اس نے اچھا کیا اور جو روزہ رکھنا پسند کرتا ہے اس پر کوئی حرج نہیں۔
“ (صحیح مسلم، الصیام، حدیث: 2629(1121)
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں:
رخصت، واجب کے مقابلے میں استعمال ہوا ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے رمضان کے روزوں کے متعلق سوال کیا تھا۔
(2)
واضح رہے کہ حدیث میں مسلسل روزے رکھنے سے مراد وصال کے روزے نہیں ہیں کیونکہ اس سے رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے۔
(فتح الباري: 229/4)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1943