Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
14. بَابُ قَوْلِهِ: {وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنْتَ عَلَيْهَا إِلاَّ لِنَعْلَمَ مَنْ يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّنْ يَنْقَلِبُ عَلَى عَقِبَيْهِ وَإِنْ كَانَتْ لَكَبِيرَةً إِلاَّ عَلَى الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَحِيمٌ} :
باب: آیت کی تفسیر ”اور جس قبلہ پر آپ اب تک تھے، اسے تو ہم نے اسی لیے رکھا تھا کہ ہم جان لیں رسول کی اتباع کرنے والے کو، الٹے پاؤں واپس چلے جانے والوں میں سے، یہ حکم بہت بھاری ہے مگر ان لوگوں پر نہیں جنہیں اللہ نے راہ دکھا دی ہے اور اللہ ایسا نہیں کہ ضائع ہو جانے دے، تمہارے ایمان (یعنی پہلی نمازوں) کو اور اللہ تو لوگوں پر بڑا مہربان ہے“۔
حدیث نمبر: 4488
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ , حَدَّثَنَا يَحْيَى , عَنْ سُفْيَانَ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ , عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: بَيْنَا النَّاسُ يُصَلُّونَ الصُّبْحَ فِي مَسْجِدِ قُبَاءٍ إِذْ جَاءَ جَاءٍ، فَقَالَ:" أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُرْآنًا أَنْ يَسْتَقْبِلَ الْكَعْبَةَ فَاسْتَقْبِلُوهَا فَتَوَجَّهُوا إِلَى الْكَعْبَةِ".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے سفیان نے، ان سے عبداللہ بن دینار نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ لوگ مسجد قباء میں صبح کی نماز پڑھ ہی رہے تھے کہ ایک صاحب آئے اور انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن نازل کیا ہے کہ آپ نماز میں کعبہ کی طرف منہ کریں، لہٰذا آپ لوگ بھی کعبہ کی طرف رخ کر لیں۔ سب نمازی اسی وقت کعبہ کی طرف پھر گئے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4488 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4488  
حدیث حاشیہ:

ایک روایت میں وضاحت ہے کہ ان کے چہرے شام کی طرف تھے تو انھوں نے دوران نماز ہی میں کعبے کی طرف منہ کر لیا۔
(صحیح البخاري، الصلاة، حدیث: 403)
دوران نماز میں بیت اللہ کی طرف منہ کرنے کا ایک واقعہ مسجد قبلتین میں بھی پیش آیا تھا۔
اس مسجد کو قبلتین کہنے کی وجہ تسمیہ یہی ہے جیسا کہ حدیث 4486۔
میں ہے۔
یہ دوسرا قباء میں پیش آیا جیساکہ مذکورہ حدیث میں اس کی وضاحت ہے۔

اس آیت کریمہ میں تحویل قبلہ کی ایک غرض یہ بیان کی گئی ہے کہ اہل ایمان کے لیے ادھر سےاُدھر پھر جانا کوئی مشکل معاملہ نہ تھا کیونکہ وہ تو رسول اللہ ﷺ کے اشارے کے منتظر تھے البتہ اہل یقین کو اہل شک سے علیحدہ کرنا مقصود تھا تاکہ معاشرے میں دونوں قسم کے لوگ نمایاں ہو جائیں چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
واللہ المستعان۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4488   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 111  
´قبلے کا بیان`
«. . . 277- مالك عن عبد الله بن دينار أن عبد الله بن عمر قال: بينما الناس بقباء فى صلاة الصبح، إذ جاءهم آت، فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد أنزل عليه الليلة قرآن، وقد أمر أن يستقبل الكعبة فاستقبلوها، وكانت وجوههم إلى الشام، فاستداروا إلى الكعبة. . . .»
. . . سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ لوگ قبا میں صبح کی نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک آدمی نے آ کر کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر آج رات قرآن نازل ہوا ہے اور حکم دیا گیا ہے کہ (نماز میں) کعبہ کی طرف رخ کرو۔ وہ لوگ شام (قبلہ اولیٰ) کی طرف نماز پڑھ رہے تھے، تو انہوں نے نماز میں ہی کعبہ کی طرف رخ پھیر لئے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 111]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 403، ومسلم 526، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ اگر راوی ثقہ وصدوق ہو تو خبر واحد حجت ہے اور اس پر ایمان لانا فرض ہے۔
➋ شرعی احکامات میں نسخ واقع ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جب چاہا اپنے بعض احکامات کو منسوخ فرما دیا۔ «وهو عليٰ كل شيء قدير» ➌ پہلے بیت المقدس (قبلۂ اولیٰ) کی طرف نماز پڑھی جاتی تھی بعد میں بیت اللہ (مکہ) کی طرف نماز پڑھنے کا حکم دے دیا گیا۔ اب قیامت تک یہی قبلہ ہے۔
➍ قبلہ کی سمت میں غلطی ہو گئی، بعد میں کسی نے بتایا تو پہلی نماز پر بنا کرے گا۔
➎ صحابہ کرام ہر وقت کتاب و سنت پر عمل کرنے کیلئے تیار رہتے تھے۔
➏ حافظ ابن عبدالبر نے لکھا ہے کہ جس آدمی نے آکر کہا: تھا وہ (سیدنا) عباد بن بشیر (رضی اللہ عنہ) تھے۔ [التمهيد 17/46]
➐ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم پر تئیس سالہ دور نبوت میں قرآن مجید مختلف اوقات میں تھوڑا تھوڑا کرکے نازل ہوا ہے لیکن سارا قرآن «ليلة القدر» میں آسمان دنیا پر بیت معمور میں نازل کردیا گیا تھا۔
➑ اگر حالتِ نماز میں کسی عذر کی وجہ سے حالت بدل جائے تو نماز اس کے مطابق جاری رکھنی چاہئے۔
➒ اگر نیت صحیح ہو تو اجتہاد میں غلطی کی وجہ سے ثواب ملتا ہے۔ ایسی حالت میں نماز کے اعادے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
➓ جب شرعی عذر ہو تو نماز میں عمل کثیر بھی جائز ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 277   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 494  
´اجتہاد قبلہ متعین کرنے کے بعد اس کی غلطی واضح ہو جانے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ لوگ قباء میں صبح کی نماز پڑھ رہے تھے کہ اسی دوران ایک آنے والا آیا، اور کہنے لگا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر آج رات (وحی) نازل کی گئی ہے، اور آپ کو حکم ملا ہے کہ (نماز میں) کعبہ کی طرف رخ کریں، لہٰذا تم لوگ بھی اسی کی طرف رخ کر لو، (اس وقت) ان کے چہرے شام (بیت المقدس) کی طرف تھے، تو وہ لوگ کعبہ کی طرف گھوم گئے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الصلاة/حدیث: 494]
494 ۔ اردو حاشیہ:
➊ ظاہر الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگ باجماعت نماز پڑھ رہے تھے تو یہ اطلاع پہنچی، گویا ایسا ہی واقعہ مسجد بنوحارثہ میں عصر کی نماز کے اندر پیش آیا، لیکن چونکہ مسجد قباء کی اپنی فضیلت و اہمیت ہے، اس لیے اس کا نام مسجد قبلتین نہیں پڑا تاکہ بحیثیت مسجد قباء ہونے کے اس کی جو اہمیت ہے وہ دب نہ جائے، بخلاف مسجد قبلتین کے کہ اس کا قبلتین ہونا ہی سب سے بڑی خصوصیت ہے۔
➋تمام احادیث کو جمع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ تحویل قبلہ کا حکم ظہر کی نماز کے وقت اترا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبے کی طرف اولین نماز، ظہر کی پڑھی۔ آپ کے ساتھ نماز پڑھنے والوں نے یہ اطلاع دوسری مساجد میں پہنچائی۔ مدینے والوں کو یہ اطلاع عصر کی نماز کے دوران میں ملی۔ انہوں نے نماز کی حالت ہی میں رخ بدل لیا۔ مسجد قباء میں شہر سے واپس جانے والوں نے صبح کی نماز کے وقت اطلاع پہنچائی۔
➌امام صاحب کا استدلال یوں ہے کہ تحویل قبلہ کے حکم کے بعد تین نمازیں اہل قباء نے غیرقبلہ کی طرف پڑھیں، لیکن چونکہ اس بات کا پتہ ان نمازوں کی ادائیگی کے بعد چلا، لہٰذا دہرانے کی ضرورت نہ تھی۔ اب ابھی اگر نماز کی ادائیگی کے بعد پتہ چلے کہ نماز غلط جانب پڑھی گئی ہے تو دہرانے کی ضرورت نہیں، بشرطیکہ نماز سے پہلے قبلہ معلوم کرنے کی کوشش کی گئی ہو۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 494   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 746  
´کوشش اور اجتہاد کے بعد قبلہ کے غلط ہو جانے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ لوگ مسجد قباء میں فجر کی نماز پڑھ رہے تھے کہ اسی دوران ایک آنے والا آیا، اور اس نے کہا: آج رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کچھ قرآن نازل ہوا ہے، اور آپ کو حکم دیا گیا ہے کہ آپ قبلہ (کعبہ) کی طرف رخ کریں، تو ان لوگوں نے کعبہ کی طرف رخ کر لیا، اور حال یہ تھا کہ ان کے چہرے شام کی طرف تھے تو وہ کعبہ کی طرف (جنوب کی طرف) گھوم گئے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب القبلة/حدیث: 746]
746 ۔ اردو حاشیہ: دیکھیے سنن نسائی حدیث: 494۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 746   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4494  
4494. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ لوگ ابھی مسجد قباء میں صبح کی نماز پڑھ ہی رہے تھے کہ ایک آنے والے نے آ کر خبر دی: آج رات رسول اللہ ﷺ پر قرآن نازل ہوا ہے اور آپ کو خانہ کعبہ کی طرف منہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے، اس لیے آپ لوگ بھی اسی طرح منہ کر لیں۔ وہ لوگ اس وقت شام (بیت المقدس) کی طرف منہ کر کے نماز پڑھ رہے تھے وہ اسی حالت میں کعبے کی طرف پھر گئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4494]
حدیث حاشیہ:
تحویل قبلہ پر ایک تبصرہ:
نبی کریم ﷺ کی عادت مباکہ تھی کہ جس بارے میں کوئی حکم الٰہی موجونہ ہوتا، اس میں آپ اہل کتاب سے موافقت فرمایا کرتے تھے۔
نماز آغاز نبوت ہی سے فرض ہو چکی تھی۔
مگر قبلہ کے متعلق کوئی حکم نازل نہ ہوا تھا۔
اس لیے مکہ کی تیرہ سالہ اقامت کے عرصہ میں نبی انے بیت المقدس ہی کوقبلہ بنا ئے رکھا۔
مدینہ میں پہنچ کر بھی یہی عمل رہا، مگر ہجرت کے دوسرے سال یا 17ماہ کے بعد خدا نے اس بارے میں حکم نازل فرمایا، یہ حکم نبی کی دلی منشاء کے موافق تھا کیونکہ آپ دل سے چاہتے تھے کہ مسلمانوں کا قبلہ وہ مسجد بنا ئی جائے جس کے بانی حضرت ابراہیم ؑ تھے۔
جسے مکعب شکل کی عمارت ہونے کی وجہ سے کعبہ اور صرف عبادت الٰہی کے لیے بنائے جانے کی وجہ سے بیت اللہ اور عظمت اور حمت کی وجہ سے مسجد الحرام کہا جاتا تھا۔
اس حکم میں جو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں نازل فرما یا ہے۔
(1)
یہ بھی بتا یا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو جملہ جہا ت سے یکساں نسبت ہے۔
﴿فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ﴾ (البقرہ: 115)
اور ﴿وَلِكُلٍّ وِجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّيهَا فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ أَيْنَ مَا تَكُونُوا يَأْتِ بِكُمُ اللَّهُ جَمِيعًا إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ﴾ (البقرہ: 148) (2)
اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ عبادت کے لیے کسی نہ کسی طرف مقرر کر لینا طبقات دوم میں شائع رہا ہے۔
﴿وَلِكُلٍّ وِجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّيهَا﴾ (البقرہ: 148) (2)
اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کسی طرف منہ کر لینا اصل عبادت سے کچھ تعلق نہیں رکھتا ﴿لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ﴾ (البقرہ: 177) (4)
اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ تعیین قبلہ کا بڑا مقصد یہ بھی ہے کہ متبعین رسول کے لیے ایک ممیز عادت قرار دی جائے۔
﴿لِنَعْلَمَ مَنْ يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّنْ يَنْقَلِبُ عَلَى عَقِبَيْهِ﴾ (البقرہ: 143)
یہی وجہ تھی کہ جب تک نبی کریم ﷺ مکہ میں رہے، اس وقت تک بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہ رہا کیونکہ مشرکین مکہ بیت المقدس کے احترام کے قائل نہ تھے اور کعبہ کو تو انہوں نے خود ہی اپنا بڑا معبد بنا رکھا تھا۔
اس لیے شرک چھوڑ دینے اور اسلام قبول کر نے کی بین علامت مکہ میں یہی رہی کہ مسلمان ہونے والا بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھا کرے۔
جب نبی کریم ﷺ مدینہ پہنچے وہاں زیادہ تر یہودی یا عیسائی ہی آباد تھے وہ مکہ کی مسجد الحرام کی عظمت کے قائل نہ تھے اور بیت المقدس کو تو وہ بیت ایل یا ہیکل تسلیم کرتے ہی تھے۔
اس لیے مدینہ میں اسلام قبول کرنے اور آبائی مذہب چھوڑکر مسلمان بننے کی علامت یہ قرار پائی کہ مکہ کی مسجد الحرام کی طرف منہ کرکے نماز پڑھی جایا کرے۔
حکم الٰہی کے مطابق یہی مسجد ہمیشہ کے لیے مسلمانوں کا قبلہ قرار پائی۔
اس مسجد کو قبلہ قرار دینے کی وجہ اللہ تعالیٰ نے خودہی بیان فرمادی ہے ﴿إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِلْعَالَمِينَ﴾ (آل عمران: 96)
یہ مسجد دنیا کی سب سے پہلی عمارت ہے جو خالص عبادت الٰہی کی غرض سے بنائی گئی ہے۔
چونکہ اسے تقدیم زمانی اور عظمت تاریخی حاصل ہے۔
اس لیے اس کو قبلہ بنایا جانا مناسب ہے۔
﴿وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَاهِيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَإِسْمَاعِيلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ﴾ (البقرہ: 27)
دوم یہ کہ اس مسجد کے بانی حضرت ابراہیم ؑ ہیں اور حضرت ابراہیم ؑ ہی یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانو ں کے جد اعلیٰ ہیں۔
اس لیے ان شاندار قوموں کے پدربزرگوار کی مسجد کو قبلہ قرار دینا گویا اقوام ثلاثہ کو اتحاد نسبی وجسمانی کی یاد دلاکر اتحاد روحانی کے لیے دعوت دینا اور متحد بن جانے کاپیغام ﴿ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً﴾ (البقرة: 208)
بنادینا تھا۔
(ازافادات حضرت قاضی سید سلیمان صاحب منصور پوری مرحوم)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4494   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 403  
403. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ لوگ مسجد قباء میں صبح کی نماز پڑھ رہے تھے کہ اچانک ایک آنے والا آیا اور اس نے اطلاع دی کہ آج رات رسول اللہ ﷺ پر قرآن نازل ہوا ہے اور اس میں آپ کو استقبال کعبہ کا حکم دے دیا گیا ہے، لہذا تم بھی کعبے کی طرف اپنا رخ کر لو، چنانچہ وہ (سنتے ہی) کعبے کی طرف گھوم گئے جب کہ اس وقت ان کا رخ شام کی طرف تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:403]
حدیث حاشیہ:
ابن ابی حاتم کی روایت میں ہے کہ عورتیں مردوں کی جگہ آگئیں اورمرد گھوم کر عورتوں کی جگہ چلے گئے۔
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ اس کی صورت یہ ہوئی کہ امام جو مسجد کے آگے کی جانب تھا گھوم کر مسجد کے پیچھے کی جانب آگیا، کیونکہ جو کوئی مدینہ میں کعبہ کی طرف منہ کرے گا توبیت المقدس اس کے پیٹھ کی طرف ہوجائے گا اور اگرامام اپنی جگہ پر رہ کر گھوم جاتا تو اس کے پیچھے صفوں کی جگہ کہاں سے نکلتی اور جب امام گھوما تو مقتدی بھی اس کے ساتھ گھوم گئے اور عورتیں بھی یہاں تک کہ وہ مردوں کے پیچھے آگئیں۔
ضرورت کے تحت یہ کیا گیا۔
جیسا کہ وقت آنے پر سانپ مارنے کے لیے مسجد میں بحالت نماز گھومنا پھرنا درست ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 403   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7251  
7251. سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: لوگ مسجد قباء میں صبح کی نماز پڑھ رہے تھے، اچانک ان کے پاس ایک آنے والا آیا اور اس نے کہا: بے شک رسول اللہ ﷺ پر رات قرآن نازل ہوا ہے اور آپ کو حکم دیا گیا ہے کہ نماز میں کعبے کی طرف منہ کرلو۔ ان کے منہ شام کی جانب تھے، پھر وہ لوگ کعبے کی طرف پھر گئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7251]
حدیث حاشیہ:
باب کی مطابقت یہ ہے کہ ایک شخص کی خبر پر مسجد قبا والوں نے عمل کیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7251   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:403  
403. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ لوگ مسجد قباء میں صبح کی نماز پڑھ رہے تھے کہ اچانک ایک آنے والا آیا اور اس نے اطلاع دی کہ آج رات رسول اللہ ﷺ پر قرآن نازل ہوا ہے اور اس میں آپ کو استقبال کعبہ کا حکم دے دیا گیا ہے، لہذا تم بھی کعبے کی طرف اپنا رخ کر لو، چنانچہ وہ (سنتے ہی) کعبے کی طرف گھوم گئے جب کہ اس وقت ان کا رخ شام کی طرف تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:403]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒ جہل نسیان کو عذرٹھہرانے میں کچھ زیادہ ہی وسیع النظر ہیں، چنانچہ انھوں نے اس مقام پر ایک مستقل عنوان قائم کرکے بتایاگیا کہ اگرسہوونسیان کی وجہ سے کوئی شخص غیر قبلہ کی طرف بھی نماز پڑھ لے گا تو اس کی نماز درست ہوگی۔
حدیث ابن عمر ؓ سے یہی ثابت ہوتا ہے، کیونکہ کعبہ معظمہ کی طرف رخ کرنے کا حکم آجانے کے باوجود اہل قباء نے لاعلمی کی وجہ سے نماز قبلہ منسوخہ کی طرف منہ کرکے ادا کی اور ناواقفیت کی وجہ سے وہ بھولنے والے کے حکم میں تھے، اس لیے انھیں نمازکے اعادے کا حکم نہیں دیا گیا۔
اسی طرح یہ حدیث عنوان کے پہلے جز پر بھی دلالت کرتی ہے، کیونکہ اس میں بیت اللہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے کا حکم ہے۔
(فتح الباري: 657/1)
حضرت ثویلہ بنت اسلم ؓ دوران نماز میں تحویل کی کی کیفیت بیان کرتی ہیں کہ عورتیں مردوں کی جگہ اور مردعورتوں کی جگہ پر منتقل ہوگئے اور ہم نے دورکعت استقبال کعبہ کے ساتھ ادا کیں۔
حافظ ابن حجر ؒ نے ذرا تفصیل بیان کی ہے کہ امام مسجد کے اگل حصے سے پچھلے حصے کی طرف آیا، کیونکہ اسی مقام پر تحویل کے لیے جگہ ناکافی تھی، اس کے بعد آدمی اور پھر عورتیں ایک دوسرے کے پیچھے ہوگئے۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مکلف کے لیے ناسخ کے حکم کی پابندی اس وقت ہوگی جب اسے معلوم ہوگا، اس سے پہلے وہ اس کا پابند نہیں ہے۔
(فتح الباري: 656/1)

اہل قباء نے نماز کا کچھ حصہ بیت المقدس کی طرف منہ کرکے ادا کیا، ان کا یہ عمل ان کے یقین کے مطابق صحیح اوردرست تھا، اس لیے اس حصے کا اعادہ نہیں کرایا گیا۔
تحری میں بھی یہی ہوتا ہے کہ انسان غوروفکر کے بعد ایک سمت کو قبلہ قراردیتا ہے اور اس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتا ہے۔
جیساکہ اہل قباء نے اپنے یقین کے مطابق بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز کا کچھ حصہ اداکیا اور اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے کبھی سوال نہیں ہوا اور نہ آپ نے انھیں اعادے ہی کا حکم دیا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 403   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4490  
4490. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ لوگ مسجد قباء میں صبح کی نماز پڑھ رہے تھے کہ اچانک ایک صاحب ان کے پاس آئے اور کہنے لگے: آج رات رسول اللہ ﷺ پر قرآن نازل ہوا ہے اور آپ کو بیت اللہ کی طرف کر کے نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے، لہذا آپ لوگ بھی اپنا رخ بیت اللہ کی طرف کر لیں۔ اس وقت لوگوں کا رخ شام (بیت المقدس) کی طرف تھا تو وہ اسی حالت میں کعبہ کی طرف پھر گئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4490]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث کی عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ مسلمانوں نے محض ایک شخص کی خبر سے رسول اللہ ﷺ کی اتباع کی اور نماز سے فراغت کا بھی انتظار نہیں کیا لیکن اہل کتاب کا رویہ اس قدر عناد پر مبنی تھا کہ انھیں ہر قسم کے دلائل مہیا کردینے کے باوجود بھی انھوں نے آپ کی اتباع نہیں کی۔

واضح رہے کہ بیت المقدس مدینہ طیبہ سے عین شمال میں ہے اور کعبہ بالکل جنوب میں واقع ہے نماز باجماعت پڑھتے ہوئے قبلہ تبدیل کرنے میں لامحالہ امام کو چل کر مقتدیوں کے پیچھے آنا پڑا ہو گا اور مقتدی حضرات کو اپنا صرف رخ ہی نہیں بدلنا پڑا ہو گا بلکہ کچھ نہ کچھ انھیں بھی چل کر اپنی صفیں درست کرنا پڑی ہوں گی۔
چنانچہ بعض روایات میں اس طرح کی تفصیل مذکورہ ہے۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4490   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4491  
4491. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک وقت لوگ مسجد قباء میں صبح کی نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک شخص نے ان کے پاس آ کر کہا: آج رات نبی ﷺ پر قرآن نازل ہوا ہے اور آپ کو حکم ہوا ہے کہ کعبے کی طرف منہ کر لیں، اس لیے آپ لوگ کعبے کی طرف منہ کر لیں۔ اس وقت ان کا منہ شام (بیت المقدس) کی طرف تھا، چنانچہ سب نمازی کعبے کی طرف پھر گئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4491]
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ نے اس حدیث پر کئی ایک عنوان قائم کیے ہیں اور اس سلسلے میں متعدد آیات ذکر کی ہیں۔
یہی طریقہ سورۃ المنافقین میں اختیار کیا گیا ہے۔
متعدد آیات اور تکرار واقعات سے امام بخاری ؒ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ان آیات میں سے کوئی آیت بھی قصے سے باہر نہیں یعنی یہ تمام آیات تحویل قبلہ سے متعلق ہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4491   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4494  
4494. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ لوگ ابھی مسجد قباء میں صبح کی نماز پڑھ ہی رہے تھے کہ ایک آنے والے نے آ کر خبر دی: آج رات رسول اللہ ﷺ پر قرآن نازل ہوا ہے اور آپ کو خانہ کعبہ کی طرف منہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے، اس لیے آپ لوگ بھی اسی طرح منہ کر لیں۔ وہ لوگ اس وقت شام (بیت المقدس) کی طرف منہ کر کے نماز پڑھ رہے تھے وہ اسی حالت میں کعبے کی طرف پھر گئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4494]
حدیث حاشیہ:

مسلمانوں کے لیے جب بیت اللہ قبلہ بنا تو مدینہ طیبہ میں ایک فتنہ برپاہو گیا۔
اہل کتاب، منافقین اور مشرکین نے طرح طرح کی باتیں بنانا شروع کردیں اور مختلف قسم کے شبہات پھیلانا شروع کردیے۔
ایسی فضا ختم کرنے کے لیے اور مسلمانوں کے دلوں میں یہ بات راسخ کرنے کے لیے کہ بیت اللہ اب ان کا ہمیشہ کے لیے قبلہ ہو گیا ہے ضرورت تھی کہ مختلف انداز میں یہ بات مسلمانوں کے ذہن نشین کرا دی جائے۔
یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے اپنے رسول اللہ ﷺ کو خطاب کر کے فرمایا:
"سفر وحضر میں آپ کہیں بھی ہوں نماز میں اپنا رخ کعبے کی طرف کریں۔
" چونکہ یہ حکم تمام مسلمانوں کے لیے بھی تھا اس لیے امت اسلامیہ کو خطاب کر کے فرمایا:
"تم لوگ جہاں کہیں بھی ہو نماز میں مسجد حرام کی طرف رخ کرو۔
" پھر اللہ تعالیٰ نے مزید تاکید کے لیے فرمایا:
"بیت المقدس سے کعبے کی طرف تحویل قبلہ اللہ کی طرف سے ہے۔
" اس کے بعد تقریباً سب دشمنان اسلام کی زبانیں بند ہو گئیں سوائے چند ظالموں کے جنھیں کوئی نہ کوئی بات بتاتے رہنا تھا۔
واللہ اعلم۔

تحویل قبلہ کے متعلق جامع تبصرہ:
۔
تحویل قبلہ پر مشتمل احادیث کی مناسبت سے ہم قاضی محمد سلیمان سلمان منصور پوری ؒ کا ایک جامع تبصرہ نقل کر رہے ہیں جو انھوں نے اپنی مایہ ناز کتاب "رحمۃ العالمین" میں تحویل کے متعلق رقم فرمایا ہے۔
نبی ﷺ کی عادت مبارکہ یہ تھی کہ جس بارہ میں کوئی حکم الٰہی موجود نہ ہوتا، اس میں آپ اہل کتاب سے موافقت فرمایاکرتے۔
نماز آغاز نبوت ہی میں فرض ہو چکی تھی مگر قبلہ کے متعلق کوئی حکم نازل نہ ہوا تھا، اس لیے مکہ کی تیرہ سالہ اقامت کے عرصہ میں نبی ﷺ نے بیت المقدس ہی کو قبلہ بنائے رکھا۔
مدینہ میں پہنچ کر بھی یہی عمل جاری رہا مگر ہجرت کے دوسرے سال یا سترہ ماہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق نیا حکم نازل فرمایا۔
یہ حکم نبی ﷺ کی دلی منشا کے موافق تھا کیونکہ آنحضرت ﷺ دل سے چاہتے تھے کہ مسلمانوں کا قبلہ وہ مسجد بنائی جائے جس کے بانی حضرت ابراہیم ؑ تھے۔
جسے مکعب شکل کی عمارت ہونے کی وجہ سے "کعبہ" اور صرف عبادت الٰہی کے لیے بنائے جانے کی وجہ سے "بیت اللہ" اور عظمت و حرمت کی وجہ سے "مسجد الحرام" کہا جاتا تھا۔
اس کے متعلق جو اللہ تعالیٰ نے حکم نازل فرمایا۔
وہ یہ ہے۔
(ا)
اللہ تعالیٰ کو جملہ جہات سے یکساں نسبت ہے، مشرق و مغرب کا مالک اللہ ہی ہے تم جدھر بھی منہ کرو ادھر ہی اللہ کا منہ ہے۔
(البقرہ2/115) (ب)
عبادت کے لیے کسی نہ کسی طرف کا مقرر کر لینا طبقات مردم میں شائع رہا ہے (ہر صاحب مذہب نے کوئی جہت ضرور مقرر کی ہے جس کی طرف وہ منہ کرتا ہے۔
)
(البقرہ: 2/148) (ج)
کسی طرف منہ کرلینا اصل عبادت سے کچھ تعلق نہیں رکھتا۔
(ساری اچھائی مشرق و مغرب کی طرف منہ کرنے میں نہیں۔
)
(البقرہ: 177/2) (د)
تعیین قبلہ کا بڑا مقصد یہ بھی ہے کہ اسے متبعین رسول کے لیے ایک ممیز علامت قرار دیا جائے تاکہ ہمیں پتہ چل جائے کہ رسول اللہ ﷺ کا سچا تابع فرمان کون ہے؟ اور کون ہے جو اپنی ایڑیوں کے بل پلٹ جاتا ہے، (البقرہ: 143/2)
یہی وجہ تھی کہ جب تک رسول اللہ ﷺ مکہ میں رہے اس وقت بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہ رہا کیونکہ مشرکین مکہ بیت المقدس کی عظمت کے قائل نہ تھے اور کعبہ تو انھوں نے خود ہی اپنا بڑا معبد بنا رکھا تھا۔
اس لیے شرک چھوڑدینے اور اسلام قبول کرنے کی بین (واضح)
علامت مکہ میں یہی رہی کہ مسلمان ہونے والا بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھا کرے۔
جب رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ میں تشریف لائے تو وہاں زیادہ یہودی یا عیسائی تھے وہ مسجد حرام کی عظمت کے قائل نہ تھے اور بیت المقدس کو تو وہ خود "بیت ایل یا ہیکل" تسلیم کرتے ہی تھے اس لیے مدینہ طیبہ میں اسلام قبول کرنے اور آبائی مذہب چھوڑ کر مسلمان بننے کی علامت یہ قرراپائی کہ مسجد الحرام کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی جائے۔
حکم الٰہی کے مطابق یہی مسجد ہمیشہ کے لیے مسلمانوں کا قبلہ قرارپائی۔
اس مسجد کو قبلہ قراردینے کی وجہ خود اللہ تعالیٰ نے بیان کر دی ہے۔
"اللہ تعالیٰ کا پہلا گھر جو لوگوں کے لیے مقرر کیا گیا وہی ہے جو مکہ میں ہے اور تمام دنیا کے لیے برکت والا اور باعث ہدایت ہے۔
'' (البقرہ: 127/2)
اس کا مطلب یہ ہے کہ مسجد حرام دنیا کی سب سے اولین عمارت ہے جو خالص عبادت الٰہی کے لیے بنائی گئی ہے۔
چونکہ اسے تقدم زمانی اور تاریخی عظمت حاصل ہے، اس لیے اسے قبلہ بنایا جانا مناسب ہے۔
اس کے بانی حضرت ابراہیمؑ ہیں:
"اور اسماعیل ؑ کعبہ کی بنیادیں اٹھا رہے تھے۔
" (آل عمران: 96/3)
اور حضرت ابراہیم ؑ ہی یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کے جد اعلیٰ ہیں اس لیے ان شاندار قوموں کے پدربزگوارکی مسجد کو قبلہ قرار دینا گویا اقوام ثلاثہ کو اتحاد نسبی و جسمانی کی یاد دلا کر اتحاد روحانی کے لیے متحد بن جانے کا پیغام سنا دینا تھا۔
"ایمان والو!اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ۔
'' (البقرة: 208/2۔
ماخوذ از رحمۃ العالمین: 199/1)

   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4494   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7251  
7251. سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: لوگ مسجد قباء میں صبح کی نماز پڑھ رہے تھے، اچانک ان کے پاس ایک آنے والا آیا اور اس نے کہا: بے شک رسول اللہ ﷺ پر رات قرآن نازل ہوا ہے اور آپ کو حکم دیا گیا ہے کہ نماز میں کعبے کی طرف منہ کرلو۔ ان کے منہ شام کی جانب تھے، پھر وہ لوگ کعبے کی طرف پھر گئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7251]
حدیث حاشیہ:
قباء کا علاقہ مدینہ طیبہ سے باہر ہے ان حضرات کو تحویل قبلہ (قبلہ تبدیل ہونے)
کے اگلے دن نماز صبح میں اطلاع ملی اور یہ اطلاع بھی صرف ایک شخص نے دی۔
اہل قباء نے اس کی تصدیق کرتے ہوئےاپنا رخ بیت اللہ کی طرف کر لیا۔
اس کا واضح مطلب ہے کہ ان کے ہاں خبر واحد حجت تھی اس لیے اگر کوئی ایک معتبر آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کرتا ہے خواہ اس کا تعلق ایمانیات سے ہو یا اعمال سے اسے ماننا چاہیے۔
ہمارے اسلاف اسی راہ پر گامزن تھے۔
خبر واحد کی حجیت سے انکار بہت بعد کی پیداوار ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7251