Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن دارمي
مقدمه
مقدمہ
24. باب الاِقْتِدَاءِ بِالْعُلَمَاءِ:
علماء کی اقتداء کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 236
أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدٍ الْقُرَشِيُّ، أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زُبَيْدٍ الْيَامِيِّ، عَنْ أَبِي الْعَجْلَانِ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: "نَضَّرَ اللَّهُ امْرَءًا سَمِعَ مِنَّا حَدِيثًا فَبَلَّغَهُ كَمَا سَمِعَهُ، فَرُبَّ مُبَلَّغٍ أَوْعَى مِنْ سَامِعٍ، ثَلَاثٌ لَا يَغِلُّ عَلَيْهِنَّ قَلْبُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ: إِخْلَاصُ الْعَمَلِ لِلَّهِ، وَالنَّصِيحَةُ لِكُلِّ مُسْلِمٍ، وَلُزُومُ جَمَاعَةِ الْمُسْلِمِينَ، فَإِنَّ دُعَاءَهُمْ يُحِيطُ مِنْ وَرَائِهِمْ".
سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے خطبہ دیا اور فرمایا: تروتازہ رکھے اللہ تعالیٰ اس شخص کو جس نے ہم سے کوئی حدیث سنی اور جیسے سنی ویسے ہی (دوسروں) تک پہنچا دی، کیونکہ بعض وہ لوگ جن کو حدیث پہنچائی گئی سننے والے سے زیاده یاد رکھنے والے ہوتے ہیں۔ تین چیزیں ہیں جن پر کسی مسلمان کا دل خیانت نہیں کرے گا: اللہ کے لئے عمل خالص، ہر مسلمان کے لئے خیر خواہی اور مسلمانوں کی جماعت کا لازم پکڑنا، کیونکہ ان کی دعائیں ان کو پیچھے سے گھیر لیتی ہیں۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف غير أن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 236]»
اس حدیث کی سند ضعیف ہے، لیکن دوسری سند سے حدیث صحیح ہے، جیسا کہ پچھلی احادیث اور تخریج میں گزر چکا ہے۔ نیز دیکھئے: [مجمع الزوائد 588]

وضاحت: (تشریح احادیث 233 سے 236)
ان تمام احادیث میں علم حاصل کرنے والوں کے لئے بشارت ہے کہ ان کے چہرے دنیا و آخرت میں تر و تازہ رہیں گے، اور یہ حقیقت ہے ہم نے کتنے ایسے عالم اور محدّث دیکھے ہیں جن کے نورانی چہرے علم و عرفان کی نعمت سے جگمگاتے تھے «(جعلنا اللّٰه منهم)» نیز ان احادیث میں طلابِ علم کی درجہ بندی ہے، جس میں سے یقیناً کچھ مجتہد اور سمجھدار ہوتے ہیں اور کچھ کم سمجھ ہوتے ہیں۔
ان احادیث میں خلوص وللّٰہیت، وعظ و نصیحت اور اتفاق و اتحاد کی ترغیب بھی ہے اور انتشار و افتراق سے بچنے کی تاکید بھی۔
واللہ علم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف غير أن الحديث صحيح