Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن دارمي
مقدمه
مقدمہ
20. باب الْفُتْيَا وَمَا فِيهِ مِنَ الشِّدَّةِ:
فتویٰ کے خطرناک ہونے کا بیان
حدیث نمبر: 169
أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُسْهِرٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ شُرَيْحٍ: أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ كَتَبَ إِلَيْهِ: "إِنْ جَاءَكَ شَيْءٌ فِي كِتَابِ اللَّهِ، فَاقْضِ بِهِ وَلَا تَلْفِتْكَ عَنْهُ الرِّجَالُ، فَإِنْ جَاءَكَ مَا لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ فَانْظُرْ سُنَّةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاقْضِ بِهَا، فَإِنْ جَاءَكَ مَا لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ وَلَمْ يَكُنْ فِيهِ سُنَّةٌ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَانْظُرْ مَا اجْتَمَعَ عَلَيْهِ النَّاسُ فَخُذْ بِهِ، فَإِنْ جَاءَكَ مَا لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ وَلَمْ يَكُنْ فِي سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ يَتَكَلَّمْ فِيهِ أَحَدٌ قَبْلَكَ، فَاخْتَرْ أَيَّ الْأَمْرَيْنِ شِئْتَ: إِنْ شِئْتَ أَنْ تَجْتَهِدَ بِرَأْيَكَ ثُمَّ تُقَدَّمَ فَتَقَدَّمْ، وَإِنْ شِئْتَ أَنْ تَتَأَخَّرَ، فَتَأَخَّرْ، وَلَا أَرَى التَّأَخُّرَ إِلَّا خَيْرًا لَكَ".
قاضی شریح سے مروی ہے کہ سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے انہیں لکھا: اگر تمہارے پاس ایسا معاملہ آئے جو قرآن کریم میں موجود ہو تو اسی کے مطابق فیصلہ کرنا، اور لوگوں کی (آراء) کی طرف مت جانا، اور اگر تمہارے پاس ایسا معاملہ آئے جو کتاب اللہ میں نہیں ہے تو پھر سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنا اور اس کے مطابق فیصلہ کرنا، اور اگر ایسا معاملہ تمہارے سامنے آئے جس میں کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں اس سے متعلق ہدایت نہ ملے تو اس بارے میں لوگوں کا اجتماع دیکھ کر اس کو اپنا لینا، اور اگر ایسا مسئلہ پیش آئے جو نہ کتاب اللہ میں ہو اور نہ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اور نہ تم سے پہلے اس بارے میں کسی نے کچھ کہا تو دو میں سے کوئی ایک بات اختیار کر لینا، اگر چاہو تو اجتہاد کر کے اپنی رائے ظاہر کر دینا، اور چاہو تو توقف اختیار کرنا، اور میں توقف کو ہی تمہارے لئے بہتر سمجھتا ہوں۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 169]»
اس اثر کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [آداب القاضي 115/10]، [الإحكام لابن حزم 1006/6]، [آداب القضاة 321/8]، [الفقيه 166/1] وغیرہ۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد