سنن دارمي
مقدمه
مقدمہ
20. باب الْفُتْيَا وَمَا فِيهِ مِنَ الشِّدَّةِ:
فتویٰ کے خطرناک ہونے کا بیان
حدیث نمبر: 168
أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي يَزِيدَ، قَالَ: كَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ "إِذَا سُئِلَ عَنْ الْأَمْرِ فَكَانَ فِي الْقُرْآنِ، أَخْبَرَ بِهِ، وَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي الْقُرْآنِ وَكَانَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَخْبَرَ بِهِ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ، فَعَنْ أَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا فَإِنْ لَمْ يَكُنْ، قَالَ فِيهِ بِرَأْيِهِ".
عبیداللہ بن ابی یزید سے مروی ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے جب کسی معاملے میں مسئلہ دریافت کیا جاتا تو اگر وہ قرآن پاک میں مذکور ہوتا تو بتا دیتے، اگر قرآن کریم میں نہ ہوتا، اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں مل جاتا تو بتا دیتے، اور اگر حدیث میں بھی نہ ہوتا تو سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے فتاوے پر نظر ڈالتے، اگر ان کے یہاں بھی وہ مسئلہ نہ ملتا تو پھر اس بارے میں اپنی رائے ظاہر فرماتے۔
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 168]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [المستدرك 127/1]، [الفقيه 203/1]، [آداب القاضي 115/10]
وضاحت: (تشریح حدیث 167)
«عَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ عَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ» کی کتنی بہترین یہ اتباع، تفسیر و عمل اور مثال ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح