سنن دارمي
مقدمه
مقدمہ
20. باب الْفُتْيَا وَمَا فِيهِ مِنَ الشِّدَّةِ:
فتویٰ کے خطرناک ہونے کا بیان
حدیث نمبر: 167
أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ حُرَيْثِ بْنِ ظُهَيْرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: "أَتَى عَلَيْنَا زَمَانٌ لَسْنَا نَقْضِي وَلَسْنَا هُنَالِكَ، وَإِنَّ اللَّهَ قَدْ قَدَّرَ مِنْ الْأَمْرِ أَنْ قَدْ بَلَغْنَا مَا تَرَوْنَ، فَمَنْ عَرَضَ لَهُ قَضَاءٌ بَعْدَ الْيَوْمِ، فَلْيَقْضِ فِيهِ بِمَا فِي كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَإِنْ جَاءَهُ مَا لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ، فَلْيَقْضِ بِمَا قَضَى بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِنْ جَاءَهُ مَا لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ، وَلَمْ يَقْضِ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلْيَقْضِ بِمَا قَضَى بِهِ الصَّالِحُونَ، وَلَا يَقُلْ إِنِّي أَخَافُ، وَإِنِّي أُرَى، فَإِنَّ الْحَرَامَ بَيِّنٌ، وَالْحَلَالَ بَيِّنٌ، وَبَيْنَ ذَلِكَ أُمُورٌ مُشْتَبِهَةٌ، فَدَعْ مَا يَرِيبُكَ إِلَى مَا لَا يَرِيبُكَ".
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: ہمارے اوپر ایسا وقت گزرا ہے کہ نہ ہم فتویٰ دیتے اور نہ اس کے اہل تھے، لیکن الله تعالیٰ نے مقدر فرمایا اور تم دیکھتے ہو ہم کس حال کو پہنچے ہیں، آج کے بعد جس کے پاس بھی کوئی معاملہ آئے تو وہ اس کے مطابق فیصلہ کرے جو اللہ عزوجل کی کتاب میں موجود ہے۔ اور اگر ایسا معاملہ درپیش ہو جو کتاب اللہ میں نہ ملے تو ویسا ہی فیصلہ کرے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا، پھر اگر ایسا کوئی مسئلہ سامنے آئے جو کتاب اللہ میں نہ ہو اور نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کوئی فیصلہ کیا ہو تو اس کو وہی فیصلہ کرنا چاہیے جو اسلاف کرام نے کیا ہے، اور یہ نہ کہے کہ مجھے ڈر ہے یا میری یہ رائے ہے، اس لئے کہ حرام واضح اور حلال بھی ظاہر ہے اور حرام و حلال کے درمیان کچھ امور متشابہ ہیں، پس تم کو جس میں شبہ ہو اسے چھوڑ دو اور جس میں شک وشبہ نہیں اسے اپنا لو۔
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «، [مكتبه الشامله نمبر: 167]»
اس قول کی سند جید ہے۔ امام نسائی نے اسے [آداب القضاة 230/8]، اور بیہقی نے [آداب القاضي 115/10]، اور ابن عبدالبر نے [جامع بيان العلم 1595، 1596] میں ذکر کیا ہے۔
وضاحت: (تشریح حدیث 166)
اس اثر میں صحابی جلیل مفسر قرآن سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا فتویٰ دینے سے احتراز اور ضرورت کے تحت کتاب اللہ اور سنّتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع، اس کے بعد اسلاف کے اقوال کے مطابق فتویٰ دینے کی ترغیب اور ابتداع یا نئی بات کہنے سے گریز کی تعلیم ہے، متشابہات سے بچنے اور محکمات پر عمل کا حکم ہے جو اسلامی تعلیمات کے عین موافق و مطابق ہے، اسلام کے یہی مآخذ ہیں قرآن و سنّت اور اجماعِ امت۔
بعض علماء نے قیاس کو چوتھا مآخد قرار دیا ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: