Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن دارمي
مقدمه
مقدمہ
18. باب كَرَاهِيَةِ الْفُتْيَا:
فتویٰ دینے سے کراہت کا بیان
حدیث نمبر: 131
أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ دَاوُدَ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، أَنَّ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّا لَا نَدْرِي، "لَعَلَّنَا نَأْمُرُكُمْ بِأَشْيَاءَ لَا تَحِلُّ لَكُمْ، وَلَعَلَّنَا نُحَرِّمُ عَلَيْكُمْ أَشْيَاءَ هِيَ لَكُمْ حَلَالٌ، إِنَّ آخِرَ مَا نَزَلَ مِنْ الْقُرْآنِ آيَةُ الرِّبَا، وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يُبَيِّنْهَا لَنَا حَتَّى مَاتَ، فَدَعُوا مَا يَرِيبُكُمْ إِلَى مَا لَا يَرِيبُكُمْ".
امام شعبی سے روایت ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: لوگو! ہم نہیں جانتے، ہو سکتا ہے ہم تمہیں ایسے امور کا حکم دیں جو تمہارے لئے جائز نہ ہوں، ہو سکتا ہے ہم تمہارے لئے ایسی چیزیں حرام قرار دے دیں جو اصل میں تمہارے لئے حلال ہوں، قرآن کریم میں آخری آیت سود والی نازل ہوئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لئے اس کی اچھی طرح وضاحت بھی نہ کی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انتقال فرما گئے، اس لئے جس چیز میں تمہیں شبہ ہو اسے چھوڑ دو اور جس میں شبہ نہیں اس سے اپنا لو (اس پر عمل کرو)۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف لانقطاعه الشعبي لم يدرك عمر بن الخطاب، [مكتبه الشامله نمبر: 131]»
اس روایت کی سند میں ضعف ہے کیونکہ شعبی نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو پایا ہی نہیں، امام طبرانی رحمہ اللہ نے [تفسير 114/3] میں اسے نقل کیا ہے۔

وضاحت: (تشریح احادیث 129 سے 131)
اس روایت کی سند ضعیف ہے اور معنی بھی محل نظر ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انتقال کے وقت فرمایا تھا: «لَقَدْ تَرَكْتُكُمْ عَلَى الْبَيْضَاء لَيْلُهَا كَنَهَارِهَا لَا يَزِيْغُ عَنْهَا إِلَّا هَالِكٌ.» ترجمہ: میں نے تم کو ایسی صاف و سفید شریعت پر چھوڑا ہے جس کی رات بھی دن (کی طرح روشن) ہے، اس سے ہلاکت میں پڑنے والا ہی منہ موڑے گا۔
[طبراني: 247/18] نیز یہ «‏‏‏‏﴿بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ﴾ [المائدة: 67] » جو کچھ آپ کے رب کی طرف سے آپ پر اتارا گیا ہے اس کی تبلیغ کیجئے۔
اور «﴿لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ﴾ [النحل: 44] » کے منافی ہے۔
یا اس سے مقصود یہ ہو سکتا ہے کہ اس آیت کے نزول کے فوراً بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہو گیا۔
واللہ اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لانقطاعه الشعبي لم يدرك عمر بن الخطاب