Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي
کتاب: غزوات کے بیان میں
84. بَابُ مَرَضِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَوَفَاتِهِ:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا بیان۔
حدیث نمبر: 4462
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ , حَدَّثَنَا حَمَّادٌ , عَنْ ثَابِتٍ , عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: لَمَّا ثَقُلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَعَلَ يَتَغَشَّاهُ , فَقَالَتْ فَاطِمَةُ عَلَيْهَا السَّلَام:" وَاكَرْبَ أَبَاهُ"، فَقَالَ لَهَا:" لَيْسَ عَلَى أَبِيكِ كَرْبٌ بَعْدَ الْيَوْمِ"، فَلَمَّا مَاتَ، قَالَتْ:" يَا أَبَتَاهُ أَجَابَ رَبًّا دَعَاهُ يَا أَبَتَاهْ مَنْ جَنَّةُ الْفِرْدَوْسِ مَأْوَاهْ يَا أَبَتَاهْ إِلَى جِبْرِيلَ نَنْعَاهْ"، فَلَمَّا دُفِنَ قَالَتْ فَاطِمَةُ عَلَيْهَا السَّلَام: يَا أَنَسُ أَطَابَتْ أَنْفُسُكُمْ أَنْ تَحْثُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ التُّرَابَ؟.
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ثابت بنانی نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ شدت مرض کے زمانے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بے چینی بہت بڑھ گئی تھی۔ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا نے کہا: آہ، ابا جان کو کتنی بے چینی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ آج کے بعد تمہارے ابا جان کی یہ بے چینی نہیں رہے گی۔ پھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی تو فاطمہ رضی اللہ عنہا کہتی تھیں، ہائے ابا جان! آپ اپنے رب کے بلاوے پر چلے گئے، ہائے ابا جان! آپ جنت الفردوس میں اپنے مقام پر چلے گئے۔ ہم جبرائیل علیہ السلام کو آپ کی وفات کی خبر سناتے ہیں۔ پھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دفن کر دئیے گئے تو آپ رضی اللہ عنہا نے انس رضی اللہ عنہ سے کہا انس! تمہارے دل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نعش پر مٹی ڈالنے کے لیے کس طرح آمادہ ہو گئے تھے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4462 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4462  
حدیث حاشیہ:

حضرت فاطمہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں کہا تھا:
ہائے میرے والد کو سخت تکلیف ہے۔
لیکن رسول اللہ ﷺ نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔
اس سے ثابت ہوا کہ موت کے قریب میت کے لیے اظہار غم و حزن جائز ہے اور وفات کے بعد بھی میت کے ایسے وصاف ذکر کرنے جائز ہیں جو موصوف میں پائے جاتے ہوں جیسا کہ حضرت فاطمہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد رسول اللہ ﷺ کے اوصاف بیان کیے جن سے آپ متصف تھے۔

اگرچہ حضرت جبرئیل ؑ کو رسول اللہ ﷺ کی وفات کا بخوبی علم تھا مگر اس کلام سے حسرت وافسوس کا اظہار کرنا مقصود ہے۔
شریعت میں وہ نوحہ ممنوع ہے جس میں رونے والا میت کے ایسے اوصاف ذکر کرے جو اس میں نہیں پائے جاتے یا وہ مبالغہ آمیزی سے کام لے جیسا کہ دور جاہلیت میں کیا جاتا تھا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4462   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1629  
´نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات اور تدفین کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موت کی سختی محسوس کی تو فاطمہ رضی اللہ عنہا کہنے لگیں: ہائے میرے والد کی سخت تکلیف ۱؎، یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آج کے بعد تیرے والد پر کبھی سختی نہ ہو گی، اور تیرے والد پر وہ وقت آیا ہے جو سب پر آنے والا ہے، اب قیامت کے دن ملاقات ہو گی ۲؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1629]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
جب کسی کا آخری وقت ہو تو اس کے پاس موجود افراد کو رونا منع نہیں بشرط یہ کہ وہ طبعی ہو۔
زمانہ جاہلیت کی طرح مصنوعی نہ ہو۔

(2)
مومن کےلئے یہ چیز تسلی کا باعث ہے کہ موت کی شدت کے بعد ہمیشہ کی راحت ہے۔

(3)
جب بیمار کی حالت دیکھ کر احباب واقارب پریشانی محسوس کریں۔
تو مریض کو چاہیے کہ انھیں تسلی دے۔
اسی طرح اگر مریض پریشان ہو تو عیادت کرنے والوں کو چاہیے کہ اسے تسلی دیں۔

(4)
موت ایک ایسا مرحلہ ہے۔
جس سے ہر شخص کو لازماً گزرنا ہے۔
لیکن احباب سے یہ جدائی عارضی ہے۔
کیونکہ اللہ کے پاس ملاقات ہوجائے گی۔

(5)
قیامت سے پہلے فوت ہونے والوں کی ایک دوسرے سے ملاقات ہوسکتی ہے۔
لیکن اصل ملاپ جس کے بعد جدائی کا خطرہ نہیں وہ تو قیامت ہی کو حاصل ہوگا۔

(6)
نبی کی وفات اور تدفین کی واضح صراحتوں کے بعد بھی آپ کی بابت یہ دعویٰ کرنا کہ آپ قبر میں بالکل اسی طرح زندہ ہیں جیسے دنیا میں تھے بلکہ اس سے بھی زیادہ حقیقی زندگی آپ ﷺ کو حاصل ہے۔
بڑی ہی عجیب بات ہے۔
ہاں آپ کو برزخی زندگی یقیناً حاصل ہے لیکن وہ کیسی ہے؟ اس کی نوعیت وکیفیت کو ہم جانتے ہیں۔
نہ جان ہی سکتے ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1629