Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن دارمي
مقدمه
مقدمہ
8. باب مَا أُعْطِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْفَضْلِ:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو فضیلت عطا کی گئی اس کا بیان
حدیث نمبر: 51
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ هُوَ ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ ابْنِ جُدْعَانَ، عَنْ أَنَسٍ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "أَنَا أَوَّلُ مَنْ يَأْخُذُ بِحَلْقَةِ بَابِ الْجَنَّةِ فَأُقَعْقِعُهَا"، قَالَ أَنَسٌ: كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى يَدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحَرِّكُهَا، وَصَفَ لَنَا سُفْيَانُ كَذَا، وَجَمَعَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ أَصَابِعَهُ وَحَرَّكَهَا، قَالَ: وَقَالَ لَهُ ثَابِتٌ: مَسَسْتَ يَدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِكَ؟، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَأَعْطِنِيهَا أُقَبِّلْهَا.
روایت ہے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں سب سے پہلا شخص ہوں جو جنت کے دروازے کو کھٹکھٹاؤں گا، انس نے کہا: گویا کہ اب بھی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک ہاتھ کو حرکت کرتے دیکھ رہا ہوں۔ سفیان رحمہ اللہ نے اس کی کیفیت بیان کرتے ہوئے کہا کہ ابوعبداللہ نے اپنی انگلیاں جمع کیں اور انہیں حرکت دی، راوی نے کہا: ثابت نے ان سے کہا: تمہارا ہاتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ سے مس ہوا تھا؟ انہوں نے کہا: ہاں، کہا: مجھے دیجئے تاکہ میں اس کا بوسہ دے سکوں۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف لضعف علي بن زيد بن جدعان، [مكتبه الشامله نمبر: 51]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے اور اسے [ترمذي 3147] و [حميدي 1238] نے روایت کیا ہے۔ لیکن آپ کا سب سے پہلے جنت کا دروازہ کھٹکھٹانا درست ہے، کما تقدم اور جیسا کہ امام احمد نے [مسند 144/3] میں صحيح سند سے ذکر کیا ہے۔ [صحيح مسلم 196] میں بھی روایت ہے۔

وضاحت: (تشریح احادیث 47 سے 51)
ان احادیث سے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت معلوم ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے شخص ہوں گے جو جنت کا دروازہ کھلوائیں گے۔
❀ راوی نے اپنے قول کی صداقت کے لئے جو کیفیت دیکھی بیان کر دی۔
❀ اسلاف کرام کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت۔
❀ بزرگ ہستی کے ہاتھ کا بوسہ دینا درست ہے۔ بعض علماء نے اسے صرف والدین کے ساتھ خاص کیا ہے۔ واللہ اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف علي بن زيد بن جدعان