صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي
کتاب: غزوات کے بیان میں
84. بَابُ مَرَضِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَوَفَاتِهِ:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا بیان۔
حدیث نمبر: 4455
حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي عَائِشَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ،عَنْ عَائِشَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ:" أَنَّ أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَبَّلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ مَوْتِهِ".
مجھ سے عبداللہ بن ابی شیبہ نے بیان کیا کہا ہم سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، ان سے سفیان بن عیینہ نے، ان سے موسیٰ بن ابی عائشہ نے، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ کو بوسہ دیا تھا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4455 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4455
حدیث حاشیہ:
1۔
حضرت ابو بکر ؓ نے رسول اللہ ﷺ کی پیشانی پر اپنا منہ رکھا اور بوسہ دیا، پھر روتے ہوئے کہا:
میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! آپ تو حیات و ممات میں پاکیزہ ہیں۔
2۔
ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابو بکر ؓ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور آپ کو چھوا تو لوگوں نے عرض کی:
اے رسول اللہ ﷺ کے ساتھی! کیا رسول اللہ ﷺ وفات پا چکے ہیں؟ حضرت ابو بکر ؓ نے فرمایا:
جی ہاں آپ وفات پا چکے ہیں۔
(مجمع الزوائد: 217/5۔
وفتح الباري: 184/8)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4455
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 432
´وفات کے بعد میتکی پیشانی کا بوسہ لینا`
”سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم (کی پیشانی) کا بوسہ لیا تھا۔“ [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 432]
لغوی تشریح:
«قَبَّل» تقبیل (باب تفعيل) سے ماخوذ ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ میت کو تعظیم و تکریم کے نقطہ نظر سے بوسہ دینا جائز ہے کیونکہ کسی ایک صحابی سے بھی سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اس فعل کو ناپسندیدہ سمجھنا منقول نہیں، گویا اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کا اجماع ہے۔ [نيل الاوطار، للشوكاني ]
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 432
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1842
´میت کو بوسہ لینے کا بیان۔`
ابوسلمہ کہتے ہیں کہ نے مجھے خبر دی ہے کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں بتایا ہے کہ ابوبکر ”سُنح“ میں واقع اپنے مکان سے ایک گھوڑے پر آئے، اور اتر کر (سیدھے) مسجد میں گئے، لوگوں سے کوئی بات نہیں کی یہاں تک کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس (ان کے حجرے میں) آئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دھاری دار چادر سے ڈھانپ دیا گیا تھا تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک کھولا، پھر وہ آپ پر جھکے اور آپ کا بوسہ لیا، اور رو پڑے، پھر کہا: میرے باپ آپ پر فدا ہوں، اللہ کی قسم! اللہ کبھی آپ پر دو موتیں اکٹھی نہیں کرے گا، رہی یہ موت جو اللہ تعالیٰ نے آپ پر لکھ دی تھی تو یہ ہو چکی ۲؎۔ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 1842]
1842۔ اردو حاشیہ:
➊ ان الفاظ کا مقصد ان لوگوں کو تنبیہ کرنا تھا جو شدت غم کی وجہ سے سمجھتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابھی فوت نہیں ہوئے، بے ہوش ہیں۔ یا جو لوگ آپ کی وفات کو عارضی خیال کرتے تھے۔ ان دونوں صورتوں میں گویا آپ پر ایک اور موت آنی تھی۔ اور یہ ناممکن ہے کہ آپ دو دفعہ فوت ہوں۔
➋ باب کا مقصد یہ ہے کہ مومن موت سے قلید نہیں ہو جاتا بلکہ پاک رہتا ہے، لہٰذا اسے بوسہ دینا اور چھونا جائز ہے جبکہ بعض فقہاء میت کو پلید کہتے ہیں لیکن یہ درست نہیں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے صحیح سند کے ساتھ مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا: «المسلم لانجس حیا و الامیتا» ”مومن زندہ ہو یا فوت شدہ، پلید نہیں ہوتا۔“ (صحیح البخاري، الجنائز، باب غسل المیت ووضوئہ بالماء و السدر، بعد الحدیث: 1252، و مختصر صحیح البخاري، اللألباني، رقم الاثر: 239) ہاں کافر مر جائیں تو پلید ہیں۔
➌ میت پر رونا جائز ہے، واویلا، چیخ و پکار اور جاہلیت کی آہ و بکا درست نہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1842
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1627
´نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات اور تدفین کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی تو اس وقت ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنی بیوی کے ساتھ جو کہ خارجہ کی بیٹی تھیں عوالی مدینہ میں تھے، لوگ کہنے لگے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال نہیں ہوا بلکہ وحی کے وقت جو حال آپ کا ہوا کرتا تھا ویسے ہی ہو گیا ہے، آخر ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے، آپ کا چہرہ مبارک کھولا اور آپ کی پیشانی کا بوسہ لیا، اور کہا: آپ اللہ کے نزدیک اس سے زیادہ معزز و محترم ہیں کہ آپ کو دو بار موت دے ۱؎، قسم اللہ کی! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا چکے ہیں ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1627]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے۔
اور مذید لکھا ہے کہ اس کی اصل الفاظ کے تھوڑے سے فرق کے ساتھ صحیح بخاری کی حدیث: 1241، 1242)
میں ہے۔
علاوہ ازیں دیگر محققین نے مذکورہ روایت کو صحیح کہا ہے۔
شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ اس کی بابت لکھتے ہیں۔
کہ مذکورہ روایت وحی کے ذکر کے بغیر صحیح ہے۔
تفصیل کے لئے دیکھئے: (الموسوعة الحدیثیة مسند الإمام أحمد: 356، 355/41)
وصحیح سنن ابن ماجة للألبانی، رقم: 1329 وسنن ابن ماجة للدکتور بشار عواد، حدیث: 1627)
الحاصل مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود قابل عمل اور قابل حجت ہے۔
(2)
رسول اللہﷺ کی حیات مبارکہ کے آخری ایام میں حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسلسل حاضر خدمت رہے تھے۔
اور رسول اللہ ﷺ كی بیماری کے ایام میں نماز کی امامت کے فرائض انجام دیتے رہےتھے۔
حتیٰ کہ سوموار کے دن فجر کی نماز بھی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اقتداء میں ادا کی گئی۔
اس کے بعد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کسی کام کے سے اپنے گھر تشریف لے گئے جو عوالی میں مقام سخ پر واقع تھا۔
وہیں انھیں رسول اللہﷺ کی رحلت کی خبر ملی
(3)
صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کا یہ عقیدہ نہیں تھا کہ رسول اللہ ﷺ کو موت نہیں آ سکتی۔
لیکن وہ حضرات اچانک صدمے کی وجہ سے اوسان کھوبیٹھے تھے۔
وفات نبویﷺ کا سانحہ ان کے لئے ناقابل برداشت تھا۔
اس ذہنی کیفیت میں بعض حضرات کی زبان سے اس قسم کی باتیں نکل گئیں۔
(4)
اس واقعے سے ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی علو شان اور عظیم مرتبے کا اظہار ہوتا ہے کہ اس عظیم سانحہ کے وقت انھوں نے امت کی قیادت اور رہنمائی کا فریضہ انجام دیا۔
جس کے لئے ان حالات میں انتہائی قوت برداشت، صبر، حوصلے اورتدبیر کی ضرورت تھی۔
(5)
یہ بھی حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حکمت تھی کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے الجھنے کی بجائے ایک طرف ہوکر اپنی بات شروع کردی۔
جس سے حاضرین کی توجہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے ہٹ گئی۔
اور اس معاملے پرآسانی سے قابو پا لیا گیا۔
(6)
حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بغیر کسی تمہید کے اصل بات شروع کردی۔
کیونکہ حالات کا تقاضا یہی تھا۔
ساتھ ہی قرآن مجید کی وہ آیت تلاوت کی جو اس موقعے کے لئے مناسب ترین تھی۔
علمائے کرام کو چاہیے کہ کسی بھی وقتی معاملے میں غور وفکر کے بعد صحیح رائے قائم کرنے کی کوشش کریں۔
اگرچہ وہ رائے عوام الناس کی سوچ کے خلاف ہواور اسے دلائل سے واضح کریں۔
علماء کا فرض عوام کی رہنمائی اور قیادت کرنا ہے۔
ان کے پیچھے چلنا نہیں۔
(7)
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جب اپنی جذباتی کیفیت کی غلطی کا احساس ہوا تو انھوں نے فوراً صحیح بات کو قبول کرلیا۔
علماء کا صرف یہی فرض نہیں کہ حکام کی ہر صحیح اورغلط بات کی مخالفت کریں بلکہ صحیح بات کی تایئد کرنا اور اس پر عمل کے سلسلے میں ممکن عملی تعاون پیش کرنا بھی ضروری ہے۔
(8)
صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین معصوم عن الخطا نہیں تھے۔
لیکن رسول اللہ ﷺ کی تربیت کا اثر تھا۔
کہ جب انھیں اپنی غلطی کا احساس ہوجاتا تو فوراً اپنے موقف سے رجوع فرما لیتے تھے۔
مسلمانوں اور خصوصاً علمائے کرام کی بھی یہی عادت ہونی چاہیے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1627
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1241
1241. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ حضرت ابو بکر ؓ اپنے مقام سخ والے گھر سے گھوڑے پر سوار ہوکر آئے اور سواری سے اتر کر مسجد میں داخل ہوئے، لوگوں سے کوئی بات نہ کی حتیٰ کہ حضرت عائشہ ؓ کے پاس گئے اور نبی کریم ﷺ کا قصد کیا۔ آپ کو دھاری دار یمنی چادر میں لپیٹا گیا تھا۔ انھوں نے چادر ہٹا کر چہرہ کھولا اور جھک کر آپ کو بوسہ دیا، پھر روپڑے اورفرمایا:اللہ کے نبی!(ﷺ) میرے ماں باپ آپ پر قربان!اللہ تعالیٰ آپ پر دو موتیں جمع نہیں کرے گا۔ بہرحال ایک دفعہ جو موت آپ کے مقدر میں تھی وہ تو آچکی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1241]
حدیث حاشیہ:
آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد ابو بکر ؓ نے آپ ﷺ کا چہرہ مبارک کھولا اور آپ کو بوسہ دیا۔
یہیں سے ترجمۃ الباب ثابت ہوا۔
وفات نبوی پر صحابہ کرام میں ایک تہلکہ مچ گیا تھا۔
مگر بروقت حضرت صدیق اکبرؓ نے امت کو سنبھالا اور حقیقت حال کا اظہار فرمایا جس سے مسلمانوں میں ایک گونہ سکون ہوگیا اور سب کو اس بات پر اطمینان کلی حاصل ہوگیا کہ اسلام اللہ کا سچا دین ہے وہ اللہ جو ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے۔
آنحضرت ﷺ کی وفات سے اسلام کی بقا پر کوئی اثر نہیں پڑسکتا۔
آپ ﷺ رسولوں کی جماعت کے ایک فرد فرید ہیں۔
اور دنیا میں جو بھی رسول آئے اپنے اپنے وقت پر سب دنیا سے رخصت ہو گئے۔
ایسے ہی آپ بھی اپنا مشن پورا کر کے ملاء اعلی سے جاملے۔
صلی اللہ علی حبیبه وبارك وسلم۔
بعض صحابہ کا یہ خیال بھی ہو گیا تھا کہ آنحضرت ﷺ دوبارہ زندہ ہوں گے۔
اسی لیے حضرت صدیق ؓ نے فرمایا کہ اللہ پاک آپ پر دو موت طاری نہیں کرے گا۔
اللھم صل علی محمد وعلی آل محمد وبارك وسلم۔
آمین
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1241
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1241
1241. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ حضرت ابو بکر ؓ اپنے مقام سخ والے گھر سے گھوڑے پر سوار ہوکر آئے اور سواری سے اتر کر مسجد میں داخل ہوئے، لوگوں سے کوئی بات نہ کی حتیٰ کہ حضرت عائشہ ؓ کے پاس گئے اور نبی کریم ﷺ کا قصد کیا۔ آپ کو دھاری دار یمنی چادر میں لپیٹا گیا تھا۔ انھوں نے چادر ہٹا کر چہرہ کھولا اور جھک کر آپ کو بوسہ دیا، پھر روپڑے اورفرمایا:اللہ کے نبی!(ﷺ) میرے ماں باپ آپ پر قربان!اللہ تعالیٰ آپ پر دو موتیں جمع نہیں کرے گا۔ بہرحال ایک دفعہ جو موت آپ کے مقدر میں تھی وہ تو آچکی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1241]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت ابوبکر ؓ مقام سخ میں رہائش پذیر تھے جو رسول اللہ ﷺ کے کاشانہ مبارک سے ایک میل کے فاصلے پر تھا۔
انہوں نے آتے ہی رسول اللہ ﷺ سے چادر کو ہٹایا اور دونوں آنکھوں کے درمیان پیشانی کو بوسہ دیا۔
امام بخاری ؒ نے صرف اس بات کو ثابت کرنے کے لیے مذکورہ حدیث پیش کی ہے کہ میت کو اگر کفن میں لپیٹ دیا جائے تو بھی کسی ضرورت کے پیش نظر اسے کھولا جا سکتا ہے۔
دراصل حضرت نخعی ؒ کا موقف ہے کہ مرنے کے بعد صرف غسل دینے والا ہی اسے دیکھ سکتا ہے، اس لیے امام بخاری ؒ نے مذکورہ حدیث سے اس کا جواز ثابت کیا ہے۔
(2)
حضرت عمر ؓ نبی اکرم ﷺ کی وفات کی وجہ سے زیادہ نڈھال تھے۔
آپ نے یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ اللہ تعالیٰ عنقریب رسول اللہ ﷺ کو دوبارہ اٹھائے گا اور آپ لوگوں کے ساتھ پاؤں قطع کریں گے، یعنی شرعی حدود کا نفاذ کریں گے۔
اس بات کا لوگوں میں بھی چرچا ہونے لگا۔
چونکہ اس کا تعلق عقیدے سے تھا، اس لیے حضرت ابوبکر ؓ نے اس کی تردید کو ضروری خیال کیا اور فرمایا کہ دنیا میں آپ کو دو موتوں سے دوچار نہیں ہونا بلکہ صرف ایک ہی موت آنی تھی جو آ چکی ہے۔
(فتح الباري: 148/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1241
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4452
4452. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ حضرت ابوبکر ؓ اپنی رہائش گاہ سُخ سے گھوڑے پر سوار ہو کر آئے۔ پھر سواری سے اتر کر مسجد میں داخل ہوئے اور لوگوں سے بالکل ہم کلام نہ ہوئے۔ سیدھے عائشہ ؓ کے پاس آئے اور رسول اللہ ﷺ کا قصد کیا۔ آپ کو دھاری دار یمنی چادر میں ڈھانپا گیا تھا۔ انہوں نے آپ کے چہرہ انور سے کپڑا اٹھایا، پھر آپ پر جھکے اور آپ کے چہرہ انور کو بوسہ دیا اور رو پڑے، پھر فرمایا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! اللہ تعالٰی آپ پر دو موتیں جمع نہیں کرے گا۔ بہرحال ایک موت جو آپ کے لیے لکھی جا چکی تھی وہ تو ہو چکی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4452]
حدیث حاشیہ:
1۔
رسول اللہ ﷺ کی وفات کے وقت حضرت ابو بکر ؓ مقام سخ سے تشریف لائے تھے جو ان کی بیوی بنت خارجہ کا مسکن تھا۔
انھوں نے وہاں رسول اللہ ﷺ کی اجازت سے رہائش رکھی تھی۔
انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے آکر کہا:
اللہ تعالیٰ آپ پر دو موتیں جمع نہیں کرے گا۔
2۔
دراصل بعض لوگوں کا خیال تھا کہ رسول اللہ ﷺ عنقریب زندہ ہوں گے اور لوگوں کے ہاتھ کاٹیں گے، پھر آپ کو دوسری موت سے دوچار کیا جائے گا۔
حضرت ابو بکر ؓ نے وضاحت فرما دی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ اعزاز و اکرام دیا ہے کہ اس نے آپ کو دو موتیں نہیں دیں جس طرح حضرت عزیر ؑ اور کچھ بنی اسرائیل کو دوموتوں سے دو چار کیا تھا۔
رسول اللہ ﷺ پر جو موت آنا تھی وہ آچکی ہے، اب کوئی دوسری موت نہیں آئے گی۔
ایسے حالات میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابو بکرصدیق ؓ کو حوصلہ دیا کہ وہ خود بھی ثابت قدم رہے اور دوسروں کو بھی حوصلہ دیا۔
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4452