سنن دارمي
مقدمه
مقدمہ
3. باب كَيْفَ كَانَ أَوَّلُ شَأْنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ابتدائی حالت کا بیان
حدیث نمبر: 13
أَخْبَرَنَا نُعَيْمُ بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، عَنْ بَحِيرٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَمْرٍو السُّلَمِيُّ، عَنْ عُتْبَةَ بْنِ عَبْدٍ السُّلَمِيِّ، أَنَّهُ حَدَّثَهُمْ وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لَهُ رَجُلٌ: كَيْفَ كَانَ أَوَّلُ شَأْنِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، قَالَ: "كَانَتْ حَاضِنَتِي مِنْ بَنِي سَعْدِ بْنِ بَكْرٍ، فَانْطَلَقْتُ أَنَا، وَابْنٌ لَهَا فِي بَهْمٍ لَنَا وَلَمْ نَأْخُذْ مَعَنَا زَادًا، فَقُلْتُ: يَا أَخِي، اذْهَبْ فَأْتِنَا بِزَادٍ مِنْ عِنْدِ أُمِّنَا، فَانْطَلَقَ أَخِي وَمَكَثْتُ عِنْدَ الْبَهْمِ، فَأَقْبَلَ طَائِرَانِ أَبْيَضَانِ كَأَنَّهُمَا نَسْرَانِ، فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ: أَهُوَ هُوَ؟، قَالَ الْآخَرُ: نَعَمْ، فَأَقْبَلَا يَبْتَدِرَانِي فَأَخَذَانِي فَبَطَحَانِي لِلْقَفَا فَشَقَّا بَطْنِي ثُمَّ اسْتَخْرَجَا قَلْبِي فَشَقَّاهُ، فَأَخْرَجَا مِنْهُ عَلَقَتَيْنِ سَوْدَاوَيْنِ، فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ: ائْتِنِي بِمَاءِ ثَلْجٍ، فَغَسَلَ بِهِ جَوْفِي، ثُمَّ قَالَ: ائْتِنِي بِمَاءِ بَرَدٍ، فَغَسَلَ بِهِ قَلْبِي، ثُمَّ قَالَ: ائْتِنِي بِالسَّكِينَةِ فَذَرَّهُ فِي قَلْبِي، ثُمَّ قَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ: حُصْهُ، فَحَاصَهُ وَخَتَمَ عَلَيْهِ بِخَاتَمِ النُّبُوَّةِ، ثُمَّ قَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ: اجْعَلْهُ فِي كِفَّةٍ وَاجْعَلْ أَلْفًا مِنْ أُمَّتِهِ فِي كِفَّةٍ"، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"فَإِذَا أَنَا أَنْظُرُ إِلَى الْأَلْفِ فَوْقِي أُشْفِقُ أَنْ يَخِرَّ عَلَيَّ بَعْضُهُمْ، فَقَالَ: لَوْ أَنَّ أُمَّتَهُ وُزِنَتْ بِهِ لَمَالَ بِهِمْ، ثُمَّ انْطَلَقَا وَتَرَكَانِي"، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"وَفَرِقْتُ فَرَقًا شَدِيدًا، ثُمَّ انْطَلَقْتُ إِلَى أُمِّي فَأَخْبَرْتُهَا بِالَّذِي لَقِيتُ، فَأَشْفَقَتْ أَنْ يَكُونَ قَدْ الْتَبَسَ بِي، فَقَالَتْ: أُعِيذُكَ بِاللَّهِ، فَرَحَلَتْ بَعِيرًا لَهَا، فَجَعَلَتْنِي عَلَى الرَّحْلِ وَرَكِبَتْ خَلْفِي حَتَّى بُلَغْنَا إِلَى أُمِّي، فَقَالَتْ: أَدَّيْتُ أَمَانَتِي وَذِمَّتِي، وَحَدَّثَتْهَا بِالَّذِي لَقِيتُ، فَلَمْ يَرُعْهَا ذَلِكَ، وَقَالَتْ: إِنِّي رَأَيْتُ حِينَ خَرَجَ مِنِّي شَيْئًا، يَعْنِي: نُورًا أَضَاءَتْ مِنْهُ قُصُورُ الشَّامِ".
سیدنا عتبۃ بن عبدالسلمی رضی اللہ عنہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے تھے، بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یا رسول الله! آپ کی ابتدائی حالت کیا تھی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری رضاعی ماں قبیلہ بنی سعد بن بکر کی تھیں، میں ان کے بیٹے کے ہمراہ ان کی بھیڑوں کے ساتھ نکلا، ہمارے ساتھ کھانے پینے کو کچھ نہ تھا، میں نے (اپنے رضاعی بھائی سے) کہا: اے بھائی جاؤ اور ماں کے پاس سے کھانا لے آؤ، لہذا بھائی تو چلا گیا اور ریوڑ کے پاس میں ہی تنہا رہ گیا (کیا دیکھتا ہوں) دو سفید پرندے جو گدھ کی طرح کے تھے، ان میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا: کیا یہ وہی ہیں؟ دوسرے نے جواب دیا: ہاں وہی ہیں، پھر دونوں میری طرف لپکے، مجھے پکڑا اور گدی کے بل لٹا دیا، میرا پیٹ چاک کیا اور میرے دل کو نکالا اور اسے بھی چاک کیا اور اس سے دو کالے لوتھڑے نکالے، پھر ان میں سے ایک نے اپنے دوسرے ساتھی سے کہا: برف کا پانی لاؤ، پھر اس سے میرے پیٹ کو دھویا، پھر کہا اولوں کا پانی لاؤ اور اس سے میرے دل کو دھو دیا، پھر کہا میرے پاس سکینہ (اطمینان) کو لاؤ اور اسے میرے دل پر چھڑک دیا، پھر ایک نے دوسرے ساتھی سے کہا ان کو ایک پلڑے میں رکھ دو اور ان کی امت کے ہزار افراد کو دوسرے پلڑے میں۔ پھر ایک نے دوسرے سے کہا اس کی سلائی کر دو چنانچہ ٹانکے لگا دیئے اور اس پر مہر نبوت ثبت کردی۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب میں ان ہزار کو اپنے سے اوپر دیکھتا ہوں تو ڈر لگنے لگتا ہے کہ ان میں سے کوئی (اس پلڑے سے) گر نہ جائے۔ اس واقعہ کے بعد مجھے بہت ڈر لگا اور میں نے ماں کے پاس جا کر سارا ماجرا بیان کیا اور انہیں ڈر لگا کہ کہیں مجھے آسیب تو نہیں آ گیا، کہنے لگیں: میں تمہارے لئے اللہ کی پناہ چاہتی ہوں پھر اپنے اونٹ کو لے کر چل پڑیں مجھے آگے بٹھایا اور خود پیچھے بیٹھیں یہاں تک کہ ہم اپنی والدہ صاحبہ کے پاس پہنچے اور وہ ان سے یوں گویا ہوئیں: میں نے اپنی امانت اور ذمے داری کا حق ادا کر دیا ہے اور اس کے بعد رضاعی ماں نے میرے اوپر جو گزری اس کا ماجرا بیان کر دیا لیکن والدہ صاحبہ بالکل خوف زدہ نہیں ہوئیں بلکہ کہنے لگیں جب یہ پیدا ہوئے تو میں نے دیکھا کہ میرے اندر سے ایسا نور خارج ہوا جس سے شام کے کل روشن ہو گئے۔“
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف بقية بن الوليد يدلس تدليس التسوية وقد عنعن في هذا الاسناد، [مكتبه الشامله نمبر: 13]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ دیکھئے: [مسند أحمد 184/4]، [مستدرك الحاكم 4230]، [معجم الكبير للطبراني 322] لیکن طبرانی نے 131/17، (323) میں بسند صحیح بھی اس کو روایت کیا ہے اور حدیث حلیمہ السعدیہ کو ابن حبان نے (6335) میں بھی ذکر کیا ہے۔ دیکھئے: [موارد الظمآن 2094]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف بقية بن الوليد يدلس تدليس التسوية وقد عنعن في هذا الاسناد