Note: Copy Text and to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي
کتاب: غزوات کے بیان میں
84. بَابُ مَرَضِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَوَفَاتِهِ:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا بیان۔
حدیث نمبر: 4447
حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ، أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ أَبِي حَمْزَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ الْأَنْصَارِيُّ، وَكَانَ كَعْبُ بْنُ مَالِكٍ أَحَدَ الثَّلَاثَةِ الَّذِينَ تِيبَ عَلَيْهِمْ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ: أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، خَرَجَ مِنْ عِنْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي وَجَعِهِ الَّذِي تُوُفِّيَ فِيهِ، فَقَالَ النَّاسُ: يَا أَبَا حَسَنٍ، كَيْفَ أَصْبَحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟" فَقَالَ: أَصْبَحَ بِحَمْدِ اللَّهِ بَارِئًا، فَأَخَذَ بِيَدِهِ عَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَقَالَ لَهُ: أَنْتَ وَاللَّهِ بَعْدَ ثَلَاثٍ عَبْدُ الْعَصَا، وَإِنِّي وَاللَّهِ لَأَرَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَوْفَ يُتَوَفَّى مِنْ وَجَعِهِ هَذَا، إِنِّي لَأَعْرِفُ وُجُوهَ بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ عِنْدَ الْمَوْتِ، اذْهَبْ بِنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلْنَسْأَلْهُ فِيمَنْ هَذَا الْأَمْرُ؟ إِنْ كَانَ فِينَا عَلِمْنَا ذَلِكَ، وَإِنْ كَانَ فِي غَيْرِنَا عَلِمْنَاهُ، فَأَوْصَى بِنَا، فَقَالَ عَلِيٌّ:" إِنَّا وَاللَّهِ لَئِنْ سَأَلْنَاهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَنَعَنَاهَا لَا يُعْطِينَاهَا النَّاسُ بَعْدَهُ، وَإِنِّي وَاللَّهِ لَا أَسْأَلُهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
مجھ سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا، کہا ہم کو بشر بن شعیب بن ابی حمزہ نے خبر دی، کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، ان سے زہری نے بیان کیا، انہیں عبداللہ بن کعب بن مالک انصاری نے خبر دی اور کعب بن مالک رضی اللہ عنہ ان تین صحابہ میں سے ایک تھے جن کی (غزوہ تبوک میں شرکت نہ کرنے کی) توبہ قبول ہوئی تھی۔ انہیں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے باہر آئے۔ یہ اس مرض کا واقعہ ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی تھی۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے آپ سے پوچھا: ابوالحسن! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا آج مزاج کیا ہے؟ صبح انہوں نے بتایا کہ الحمدللہ اب آپ کو افاقہ ہے۔ پھر عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کے کہا کہ تم، اللہ کی قسم تین دن کے بعد زندگی گزارنے پر تم مجبور ہو جاؤ گے۔ اللہ کی قسم، مجھے تو ایسے آثار نظر آ رہے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس مرض سے صحت نہیں پا سکیں گے۔ موت کے وقت بنو عبدالمطلب کے چہروں کی مجھے خوب شناخت ہے۔ اب ہمیں آپ کے پاس چلنا چاہئیے اور آپ سے پوچھنا چاہئیے کہ ہمارے بعد خلافت کسے ملے گی۔ اگر ہم اس کے مستحق ہیں تو ہمیں معلوم ہو جائے گا اور اگر کوئی دوسرا مستحق ہو گا تو وہ بھی معلوم ہو جائے گا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے متعلق اپنے خلیفہ کو ممکن ہے کچھ وصیتیں کر دیں لیکن علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ کی قسم! اگر ہم نے اس وقت آپ سے اس کے متعلق کچھ پوچھا اور آپ نے انکار کر دیا تو پھر لوگ ہمیں ہمیشہ کے لیے اس سے محروم کر دیں گے۔ میں تو ہرگز آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق کچھ نہیں پوچھوں گا۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4447 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4447  
حدیث حاشیہ:
حضرت علی ؓ کی کمال دانائی تھی جو انہوں نے یہ خیال ظاہر فرمایا جس سے کئی فتنون کا دروازہ بند ہوگیا، رضي اللہ عنه۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4447   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4447  
حدیث حاشیہ:

(عَبدُالعَصَا)
کے معنی ہیں لاٹھی کا بندہ یعنی مسافر کیونکہ مسافر ہاتھ میں لاٹھی رکھتا ہے، اس کی حمایت کرنے والا اور کوئی نہیں ہوتا۔
حضرت عباس ؓ کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد آپ کی حمایت کرنے والا کوئی نہیں ہو گا، اس لیے خلافت کا فیصلہ آپ کی زندگی میں ہو جانا چاہیے۔

مرض میں ایک ایک چیز سنبھالنے کی ہوتی ہے۔
چونکہ حضرت علی ؓ ناتجربہ کار تھے اس لیے انھیں اس بات کا ادراک نہ ہوا جبکہ حضرت عباس ؓ تجربہ کار تھے انھیں اس امر کا احساس ہو گیا۔
یہ حضرت عباس ؓ کی فراست تھی۔

اس حدیث کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علی ؓ کے دل میں خلافت کی تمنا موجود تھی چنانچہ بعض روایات میں ہے کہ حضرت علی ؓ نے کہا:
کیا ہمارے بغیر بھی کوئی اس خلافت کی طمع رکھتا ہے۔
حضرت عباس ؓ نے کہا میرا بھی یہی گمان ہے۔
ابن سعد کی روایت میں ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہو گئی تو حضرت عباس ؓ نے حضرت علی ؓ سے کہا:
ہاتھ پھیلاؤ تاکہ میں تمھاری بیعت کروں۔
پھر دوسرے لوگ بھی بیعت کر لیں گے۔
لیکن حضرت علی ؓ نے ایسا نہ کیا، اس کے بعد حضرت علی ؓ کہا کرتے تھے کاش! میں حضرت عباس ؓ کی بات مان لیتا۔
(الطبقات الکبری لابن سعد: 28/4)

شیعہ حضرات کہتے ہیں کہ حضرت علی ؓ وصی رسول ہیں۔
یعنی آپ نے ان کے لیے خلافت کی وصیت کی تھی۔
اگر یہ مفروضہ صحیح ہے تو انھیں یہ کہنے کی کیا ضرورت تھی کہ اگر رسول اللہ ﷺ نے ہمیں محروم کر دیا تو آپ کے بعد لوگ ہیں کبھی خلیفہ نہیں بنائیں گے۔
بہر حال شیعہ حضرات کی وصیت والی بات لغو اور من گھڑت ہے۔
(فتح الباري: 179/8)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4447