Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي
کتاب: غزوات کے بیان میں
84. بَابُ مَرَضِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَوَفَاتِهِ:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا بیان۔
حدیث نمبر: 4437
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، إِنَّ عَائِشَةَ، قَالَتْ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ صَحِيحٌ، يَقُولُ:" إِنَّهُ لَمْ يُقْبَضْ نَبِيٌّ قَطُّ حَتَّى يَرَى مَقْعَدَهُ مِنَ الْجَنَّةِ، ثُمَّ يُحَيَّا أَوْ يُخَيَّرَ"، فَلَمَّا اشْتَكَى وَحَضَرَهُ الْقَبْضُ وَرَأْسُهُ عَلَى فَخِذِ عَائِشَةَ غُشِيَ عَلَيْهِ، فَلَمَّا أَفَاقَ شَخَصَ بَصَرُهُ نَحْوَ سَقْفِ الْبَيْتِ، ثُمَّ قَالَ:" اللَّهُمَّ فِي الرَّفِيقِ الْأَعْلَى"، فَقُلْتُ: إِذًا لَا يُجَاوِرُنَا، فَعَرَفْتُ أَنَّهُ حَدِيثُهُ الَّذِي كَانَ يُحَدِّثُنَا وَهُوَ صَحِيحٌ.
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے کہ عروہ بن زبیر نے بیان کیا اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا تندرستی کے زمانے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ جب بھی کسی نبی کی روح قبض کی گئی تو پہلے جنت میں اس کی قیام گاہ اسے ضرور دکھا دی گئی، پھر اسے اختیار دیا گیا (راوی کو شک تھا کہ لفظ «يحيا» ہے یا «يخير»، دونوں کا مفہوم ایک ہی ہے) پھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیمار پڑے اور وقت قریب آ گیا تو سر مبارک عائشہ رضی اللہ عنہا کی ران پر تھا اور آپ پر غشی طاری ہو گئی تھی، جب کچھ ہوش ہوا تو آپ کی آنکھیں گھر کی چھت کی طرف اٹھ گئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ «اللهم في الرفيق الأعلى» ۔ میں سمجھ گئی کہ اب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں (یعنی دنیاوی زندگی کو) پسند نہیں فرمائیں گے۔ مجھے وہ حدیث یاد آ گئی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تندرستی کے زمانے میں فرمائی تھی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4437 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4437  
حدیث حاشیہ:

"رفیق اعلیٰ" کی تعبیر میں اختلاف ہے کچھ حضرات نے اس سے ذات باری تعالیٰ کو مراد لیا ہے کچھ حضرات کہتے ہیں کہ اس سے مقصود حضرات انبیاء ؑ ہیں۔
بعض نے کہا:
اس سے ملائکہ مراد ہیں کچھ علماء کا کہنا ہے کہ اس سے وہ جگہ مراد ہے جہاں ان کی رفاقت ہو گی اور وہ جنت ہے۔
ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا:
اے اللہ! مجھے بخش دے مجھ پر رحم فرما اور مجھے رفیق کے ساتھ ملا دے۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4440)
بعض روایات میں ہے کہ اللہ تعالیٰ سے رفیق اعلیٰ کا سوال کرتا ہوں جو سعادت مند ہے۔
حضرت جبرئیل، حضرت مکائیل اور حضرت اسرافیل کی معیت مانگتا ہوں۔
یہ روایات اس موقف کی تردید کرتی ہیں کہ روایت کے الفاظ راوی سے بدل گئے ہیں۔
دراصل لفظ "رفیق" تھا جس کے معنی آسمان ہیں راوی نے اس کو رفیق بنا دیا۔
مذکورہ روایات اس موقف کی تردید کرتی ہیں۔
(فتح الباري: 172/8)

ہمارے نزدیک اس سے مراد رفاقت ہے جو درج ذیل آیت میں بیان ہوئی ہے:
اور جو شخص اور رسول اللہ ﷺ کی ا طاعت کرتا ہے تو ایسے لوگ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا ہے یعنی انبیاء صدیقین شہداء اور صالحین کے ساتھ اور رفیق ہونے کے لحاظ سے یہ لوگ کتنے اچھے ہیں۔
(النساء: 69/4
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4437   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5674  
´مریض کا موت کی تمنا کرنا منع ہے`
«. . . عَنْ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، قَالَ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُسْتَنِدٌ إِلَيَّ يَقُولُ:" اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَارْحَمْنِي وَأَلْحِقْنِي بِالرَّفِيقِ الأَعْلَى . . .»
. . . عباد بن عبداللہ بن زبیر نے بیان کیا کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرا سہارا لیے ہوئے تھے (مرض الموت میں) اور فرما رہے تھے «اللهم اغفر لي وارحمني وألحقني بالرفيق الأعلى» اے اللہ! میری مغفرت فرما مجھ پر رحم کر اور مجھ کو اچھے رفیقوں (فرشتوں اور پیغمبروں) کے ساتھ ملا دے۔ [صحيح البخاري/كتاب المرضى: 5674]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 5674 کا باب: «بَابُ تَمَنِّي الْمَرِيضِ الْمَوْتَ:»
باب اور حدیث میں مناسبت:
ترجمۃ الباب میں امام بخاری رحمہ اللہ نے موت کی تمنا کرنے کو ناجائز قرار دیا ہے اور اسی پر باب قائم فرمایا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے تحت الباب چار احادیث کا ذکر فرمایا ہے۔
سیدنا انس، سیدنا خباب بن ارت اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہم کی احادیث سے باب میں مناسبت واضح ہے، مگر چوتھی حدیث جو ام المؤمنین سے مروی ہے اس کی باب سے مناسبت مشکل ہے کیونکہ اس میں موت کی تمنا کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے۔

دراصل امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کو تحت الباب آخر میں ذکر فرمایا ہے، آپ کی یہاں مراد یہ ہے کہ ایک روایت میں ہے: «ولا يدع به قبل ان يأتيه» جو اس بات کی قید ہے کہ موت کی تمنا اس وقت درست ہو گی کہ جب اس کے آثار نمایاں ہو جائیں تو اس وقت موت کی تمنا کرنا جائز ہو گی، اسی لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے «اللهم بالرفيق الأعلى» والی حدیث کو آخر میں ذکر فرمایا،

چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ العسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«ولا يدع به من قبل أن ياتيه وهو قيد فى الصورتيں، ومفهومه اذا حل به لا يمنع من تمنيه رضا بلقاء الله ولا من طلبه من الله لذالك وهو كذالك، ولهذه النكتة عقب البخاري حديث أبى هريرة بحديث عائشة اللهم اغفرلي وارحمني والحقني بالرفيق الأعلى إشارة إلى أن النهي مختص بالحالة التى قبل نزول الموت، فلله دره ما كان اكثر استحضاره و ايثار للأخفى على الأجل شحذاً للأذهان، وقد خفي صنيعه هذا على من جعل حديث عائشة فى الباب معارضاً الأحاديث الباب أو ناسخاً لها .»
«لا يتمنين» ہمام بن ابی ہریرہ کی روایت میں بھی نون تاکید کے ساتھ ہے اور «الموت» کے بعد یہ جملہ بھی مراد ہے، «ولا يدع به قبل ان يأتيه» یہ دونوں صورتوں میں قید ہے، اس کا مفہوم یہ ہے کہ جب وہ آ جائے تو اس کی لقاء للہ کی تمنا اور نہ اللہ تعالیٰ سے اس کی طلب اس کے لیے مانع ہے، اسی نکتہ کے مدنظر اس کے بعد ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت لائے، جس میں نزع کے عالم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کہے یہ الفاظ مذکور ہیں، «اللهم اغفر لي وارحمني والحقني بالرفيق الأعلىٰ» تو اشارہ دیا کہ نہی نزول موت سے قبل کی حالت کے ساتھ مختص ہے تو اللہ تعالیٰ بھلا کرے امام بخاری رحمہ اللہ کا کہ کس قدر حاضر دماغ اور صاحب مطالعہ ہیں، آپ اخفٰی روایت کو اجلٰی پر ترجیح دیتے ہوئے نقل کرنے کی یہ روش تشحیذ اذہان کے لیے پیدا کی ہے، ان کی یہ صنیع ان حضرات پر مخفی رہی جنہوں نے حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا کو باب کی دیگر احاد یث کے معارض یا ان کے لیے اسے ناسخ قرار دیا۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے ان اقتباسات سے کئی باتیں ظاہر ہوئیں، آپ کا اشارہ اس طرف ہے کہ جب موت کے آثار نمایاں نہ ہوں تو حدیث «لا يتمنين» پر عمل ہو گا اور اگر جب اس کے آثار نمایاں ہو جا ئیں واضح طور پر تو حدیث ام المؤمنین عائشہ کے مطابق اس کی تمنا کرنا جائز ہو گا، لہٰذا متعارض سمجھنے والوں نے اجلت سے کام لیا، کیوں کہ ان روایات میں تطبیق واضح ہے اور یہ تعارض نہیں ہے، بلکہ بین الروایتین المختلیفین میں مخفی تطبیقی ہے، اسی بات کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ذکر فرما رہے ہیں، اب ترجمۃ الباب سے حدیث کی مناسبت واضح ہوئی کہ ترجمہ کا تعلق جو ممانعت کے ساتھ ہے ان سے وہ حضرات مراد ہیں جن پر موت کے آثار نمایاں نہیں ہیں اور اگر نمایاں ہو جائیں تو موت کی تمنا جائز ہو گی، پس یہی مراد ہے باب اور ماتحت الباب احادیث کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ «فأفهم ولا تكن من الغافلين»

حدیث پر ایک اشکال اور اس کا جواب:
مذکورہ باب کے تحت امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک اور حدیث ذکر فرمائی کہ «لَنْ يدْخَلَ أحَدََا عَمَلَه الْجَنَّةَ» یعنی تم میں سے کوئی بھی ہرگز اپنے عمل کی وجہ سے جنت میں داخل نہ ہو گا۔ یہ حدیث قرآن مجید کی آیت سے معارض ہے۔ چنانچہ امام قسطلانی رحمہ اللہ حدیث پر ایک اعتراض اس طرح سے نقل کرتے ہیں کہ:
«لن يدخل أحدأ عمله الجنة واستشكل بقوله تعالىٰ: وتلك الجنة التى أورثتموها بما كنتم تعملون» [الزخرف: 72]
یعنی حدیث کہ تم میں کوئی ہرگز اپنے عمل کی وجہ سے جنت میں نہ جائے گا اس پر یہ اشکال وارد ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ:
«وتلك الجنة التى . . . . . . . الاية» لہٰذا حدیث قرآنی آیت سے معارض ہے، کیوں کہ حدیث میں عمل کی وجہ سے جنت میں جانے کی نفی ہے اور قرآنی آیت میں اثبات۔
چنانچہ اس اشکال کا جواب دیتے ہوئے امام قسطلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«وأجيب بأن محمل الاية على أن الجنة تنال المنازل فيها بالاعمال لأن درجات الجنة متفاوتة بحسب تفاوت الاعمال وأن محل الحديث على اصل دخول الحنة .»
اس کا جواب یہ ہے کہ آیت کریمہ میں جنت سے درجات اور منازل جنت مراد ہیں کہ جنت کے درجات اعمال سے متعین ہوں گے، کیوں کہ جنت کے درجات مختلف اور متفاوت ہیں، اس لیے جس کا جس قدر عمل ٹھیک ہو گا اسی کے مطابق اس کو جنت میں رتبہ نصیب ہو گا حدیث باب میں جنت سے نفس جنت میں داخلہ مراد ہے، یعنی اصل جنت میں دخول کسی عمل کی وجہ سے نہیں ہو گا، بلکہ اللہ تعالیٰ کے خاص کرم سے ہو گا، البتہ مراتب اعمال کے اعتبار سے ہوں گے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 150   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3496  
´باب:۔۔۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی وفات کے وقت (یہ دعا) پڑھتے ہوئے سنا ہے: «اللهم اغفر لي وارحمني وألحقني بالرفيق الأعلى» اے اللہ! بخش دے مجھ کو اور رحم فرما مجھ پر اور مجھ کو رفیق اعلیٰ (انبیاء و ملائکہ) سے ملا دے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الدعوات/حدیث: 3496]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اے اللہ! بخش دے مجھ کو اور رحم فرما مجھ پر اور مجھ کو رفیق اعلیٰ (انبیاء وملائکہ) سے ملا دے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3496   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4463  
4463. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ تندرستی کی حالت میں فرمایا کرتے تھے: کوئی نبی فوت نہیں ہوتا حتی کہ وہ اپنی جگہ جنت میں دیکھ لیتا ہے۔ پھر اسے اختیار دیا جاتا ہے۔ چنانچہ جب آپ ﷺ کی وفات قریب ہوئی اور آپ کا سر مبارک میری ران پر تھا تو آپ پر غشی طاری ہو گئی۔ پھر افاقہ ہوا تو آپ نے گھر کی چھت کی طرف نظر ج دی، پھر آپ نے فرمایا: اے اللہ! میں رفیق اعلیٰ کا طلبگار ہوں۔ میں نے کہا: اب ہمیں اختیار نہیں کریں گے اور مجھے محسوس ہوا کہ یہ وہی کلام ہے جو ہم سے تندرستی کی حالت میں بیان فرمایا کرتے تھے۔ حضرت عائشہ‬ ؓ ن‬ے فرمایا: آپ کا آخری کلام جو آپ کی زبان سے نکلا وہ یہ تھا: اے اللہ! میں اپنے رفیق اعلیٰ کو اختیار کرتا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4463]
حدیث حاشیہ:
نزع کی حالت میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ آپ ﷺ کو سہارا دئیے ہوئے پس پشت بیٹھی ہوئی تھیں۔
پانی کا پیالہ حضور ﷺ کے سرہانے رکھا ہوا تھا۔
آپ پیالہ میں ہاتھ ڈالتے اور چہرہ پر پھیر لیتے تھے۔
چہرہ مبارک کبھی سرخ ہوتا کبھی زور پڑجاتا، زبان مبارک سے فرما رہے تھے لا إله إلا الله إن للموت سکرات اتنے میں عبد الرحمن بن ابی بکر ؓ ہاتھ میں تازہ مسواک لئے ہوئے آگئے۔
آپ ﷺ نے مسواک پر نظر ڈالی تو حضرت صدیقہ ؓ نے مسواک کو اپنے دانتوں سے نرم کرکے پیش کر دیا۔
حضور ﷺ نے مسواک کی پھر ہاتھ کو بلند فرمایا اور زبان اقدس سے فرمایا ''اللهم الرفیق الأعلیٰ'' اس وقت ہاتھ لٹک گیا اور پتلی اوپر کو اٹھ گئی۔
إنا لله و إنا إلیه راجعون۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4463   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5674  
5674. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نےکہا کہ میں نے نبی ﷺ سے سنا جبکہ آپ میرا سہارا لیے ہوئے تھے: اے اللہ! میری مغفرت فرما، مجھ پر رحم اور مجھے رفیق اعلٰی سے ملا دے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5674]
حدیث حاشیہ:
حضرت امام بخاری اس حدیث کو باب کے آخر میں اس لیے لائے کہ موت کی آرزو کرنا اس وقت تک نہیں ہے جب تک موت کی نشانیاں نہ پیدا ہوئی ہوں لیکن جب موت بالکل سر پر آن کھڑی ہو اس وقت دعا کرنا منع نہیں ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5674   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6348  
6348. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ جب تندرست تھے تو فرمایا کرتے تھے کسی نبی کی روح قبض نہیں کی جاتی یہاں تک کہ وہ جنت میں اپنا ٹھکانا دیکھ لیتا ہے اس کے بعد اسے اختیار دیا جاتا ہے جب آپ ﷺ مرض وفات میں مبتلا ہوئے تو اس وقت آپ کا سر مبارک میری ران پر تھا۔ آپ پر تھوڑی دیر کے لیے غشی طاری ہوئی، جب کچھ افاقہ ہوا تو ٹکٹکی باندھ کر آپ چھت کی طرف دیکھنے لگے۔ پھر آپ نے فرمایا: اے اللہ! رفیق اعلٰی کی رفاقت کا طلب گار ہوں۔ میں نے سمجھ لیا کہ آپ ﷺ ہمیں اختیار نہیں کریں گے۔ مجھے یقین ہوگیا کہ یہ وہی بات ہے جو آپ زمانہ تندرستی میں فرمایا کرتے تھے سیدہ عائشہ‬ ؓ ب‬یان کرتی ہیں کہ آپ کا آخری کلمہ یہ تھا جو آپ نے اپنی زبان سے ادا فرمایا: اے اللہ! رفیق اعلٰی کی رفاقت کا طلب گار ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6348]
حدیث حاشیہ:
آپ کو بھی اختیار دیا گیا کہ آپ دنیا میں رہنا چاہیں تو کوہ احد آپ کے لئے سونے کا بنا دیا جائے گا مگر آپ نے آخرت کو پسند فرما کرملاء اعلیٰ کی رفاقت کو پسند فرمایا۔
(صلی اللہ علیه وسلم ألف ألف مرة)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6348   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6509  
6509. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول ﷺ جب تندرست تھے تو فرمایا کرتے تھے: کسی نبی کی روح اس وقت تک قبض نہیں کی جاتی جب تک وہ جنت میں اپنا ٹھکانا نہیں دیکھ لیتے، پھر انہیں اختیار دیا جاتا ہے۔ پھر جب آپ کا سر مبارک میری ران پر تھا تو آپ پر کچھ وقت غشی آئی، پھر جب ہوش آیا تو آپ چھت کی طرف ٹکٹکی لگا کر دیکھنے لگے، پھر فرمایا: اے اللہ! میں رفیق اعلیٰ کو اختیار کرتا ہوں۔ میں نے اس وقت (دل میں) کیا: اب ہمیں اختیار نہیں کریں گے اور مجھے معلوم ہو گیا کہ یہ وہی حدیث ہے جو آپ ہمیں بیان فرمایا کرتے تھے۔ یہ آخری کلمہ تھا جو نبی ﷺ نے اپنی زبان سے ادا کیا: اے اللہ! میں رفیق اعلٰی کو اختیار کرتا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6509]
حدیث حاشیہ:
مراد باشندگان جنت انبیاء ومرسلین وصالحین وملائکہ ہیں۔
اللہ پاک ہم سب کو نیک لوگوں صالحین کی صحبت عطافرمائے۔
آمین یا رب العالمین۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6509   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4438  
4438. حضرت عائشہ‬ ؓ ہ‬ی سے ایک اور روایت ہے کہ عبدالرحمٰن بن ابی بکر ؓ نبی ﷺ کے پاس آئے جبکہ میں آپ کو اپنے سینے کا سہارا دے کر بیٹھی تھی۔ حضرت عبدالرحمٰن ؓ کے پاس تازہ مسواک تھی جس سے وہ اپنے دانتوں کو صاف کر رہے تھے۔ رسول اللہ ﷺ اسے دیر تک دیکھتے رہے۔ میں نے وہ مسواک (ان سے) لے کر چبائی اور اسے جھاڑ کر صاف اور نرم کیا، پھر نبی ﷺ کو پیش کی تو آپ نے اس سے اپنے دانتوں کو صاف کیا۔ میں نے اس سے پہلے کبھی رسول اللہ ﷺ کو اس طرح اچھی مسواک کرتے نہیں دیکھا۔ پھر مسواک سے فارغ ہوتے ہی رسول اللہ ﷺ نے اپنا ہاتھ یا انگلی اٹھائی اور تین مرتبہ فرمایا: اے اللہ! میں اچھے رفقاء کی رفاقت چاہتا ہوں۔ پھر آپ وفات پا گئے۔ حضرت عائشہ‬ ؓ ف‬رمایا کرتی تھیں کہ آپ ﷺ کی وفات میرے سینے اور ٹھوڑی کے درمیان ہوئی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4438]
حدیث حاشیہ:
اس میں یہ اشارہ تھا کہ حضرت عائشہ ؓ اور آنحضرت ﷺ دنیا اور آخرت دونوں میں ایک جگہ رہیں گے۔
حضرت علی ؓ فرماتے ہیں اللہ جانتا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ دنیا اور آخرت میں آپ کی بیوی ہیں۔
حضرت مجدد الف ثانی ؒ فرماتے ہیں کہ میں کھانا تیا ر کرکے ایصال ثواب کے وقت آنحضرت ﷺ اور حضرت فاطمہ اورحسنین ؓ کے ثواب کی نیت کیا کرتا تھا۔
ایک شب خواب میں آنحضرت ﷺ کو میں نے دیکھا کہ آپ عتاب کی نظر سے مجھ کو دیکھ رہے ہیں۔
میں نے سبب پوچھا ارشاد ہوا یہ امر سب کو معلوم ہے کہ میں حضرت عائشہ ؓ کے گھر میں کھانا کھایا کرتا ہوں۔
(لہٰذا تم کو بھی ایصال ثواب میں حضرت عائشہ ؓ کو بھی شامل کرنا چاہئیے)
حضرت مجدد کہتے ہیں میں نے اس روز سے آپ کی ازواج مطہرات خصوصا حضرت عائشہ ؓ کو بھی ایصال ثواب میں شریک کرنا شروع کردیا۔
کھانا کھلانے کے لیے مطلقا ایسا ایصال ثواب جو کسی قید یا رسم کے بغیر ہو اور خالص خدا کی رضا کے لیے کسی غریب مسکین یتیم کو کھلایا جائے اور اس کا ثواب بزرگوں کو بخشا جائے، اس کے جو از میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4438   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4440  
4440. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے ایک اور روایت ہے کہ انہوں نے نبی ﷺ سے سنا اور موت سے پہلے آپ کی طرف کان لگایا جبکہ آپ نے اپنی پیٹھ کا میرے ساتھ سہارا لیا ہوا تھا، آپ فرماتے تھے: اے اللہ! میری مغفرت فرما، مجھ پر رحم فرما اور مجھے رفیق اعلیٰ سے ملا دے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4440]
حدیث حاشیہ:

صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا:
رسول اللہ ﷺ نے میرے گھر میں میری باری کے موقع پر، میرے حلق اور سینے کے درمیان وفات پائی اور زندگی کے آخری لمحات میں اللہ تعالیٰ نے میرے لعاب اور آپ کے لعاب مبارک کو جمع کردیا۔
(صحیح البخاري، فرض الخمس، حدیث: 3100)
حضرت عائشہ ؓ نے پہلے مسواک کو آگے سے کاٹا پھر اسے دانتوں سے چبا کر نرم کیا۔
اس کے بعد رسول اللہ ﷺ کو پیش کی، ایک روایت میں ہے کہ وفات کے وقت رسول اللہ ﷺ کا سر مبارک حضرت عائشہ ؓ کی ران پر تھا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلے سر مبارک حضرت عائشہ ؓ کی ران پر تھا پھر اسے اٹھا کر سینے کے ساتھ کر لیا تھا۔

حاکم اور ابن سعد کی روایت میں ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ فوت ہوئے تو آپ کا سر مبارک حضرت علی ؓ کی گود میں تھا، لیکن یہ روایت شیعہ حضرات کی خود ساختہ ہے اور اس روایت کے ہر طریق میں شیعہ راوی ہیں۔
(الطبقات الکبری لابن سعد: 236/2 و فتح الباري: 175/8 و سلسلة الأحادیث الضعیفة والموضوعة: 710/10، رقم الحدیث: 4969)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4440   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4449  
4449. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: بےشک اللہ تعالٰی کے احسانات میں سے ایک احسان مجھ پر یہ بھی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے میری باری کے دن میرے گھر میں وفات پائی۔ وفات کے وقت آپ کا سر مبارک میرے سینے اور گردن کے درمیان تھا۔ اور اللہ تعالٰی نے آخری وقت میرا اور آپ کا لعاب دہن ملا دیا کیونکہ (میرے بھائی) حضرت عبدالرحمٰن ؓ ایک تازہ مسواک پکڑے گھر میں داخل ہوئے۔ میں اس وقت آپ کو سہارا دیے ہوئے تھی۔ میں نے دیکھا کہ آپ مسواک کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھ رہے ہیں اور مجھے معلوم تھا کہ آپ مسواک کو بہت پسند کرتے تھے۔ میں نے عرض کی: یہ مسواک آپ کے لیے لے لوں؟ آپ نے سر مبارک سے اشارہ کر کے فرمایا: ہاں۔ چنانچہ میں نے وہ مسواک لے کر آپ کو دی لیکن آپ کو سخت محسوس ہوئی، اس لیے میں نے کہا: میں اسے آپ کے لیے نرم کر دوں؟ آپ نے سر کے اشارے سے فرمایا: ہاں۔ لہذا میں نے اسے چبا کر نرم کر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4449]
حدیث حاشیہ:

صحیح بخاری ہی کی ایک روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے دنیا کے آخری اور آخرت کے پہلے دن میرا اور رسول اللہ ﷺ کا لعاب دہن اکٹھا کردیا۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4451)
اس میں میں اشارہ تھا کہ صدیقہ کائنات حضرت عائشہ ؓ اور رسول اللہ ﷺ دنیا وآخرت میں ایک جگہ رہیں گے۔

اس حدیث سے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے کہ آپ کا لعاب دہن اور رسول اللہ ﷺ کا لعاب مبارک آپ کے منہ میں جمع ہو گئے کیونکہ جب رسول اللہ ﷺ نے مسواک کرنا شروع کی تو اس وقت جو حضرت عائشہ ؓ کا لعاب دہن مسواک سے لگا ہوا تھا وہ رسول اللہ ﷺ کے لعاب مبارک سے مل گیا۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4449   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4451  
4451. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ کی وفات میرے گھر میں اور میری باری کے دن ہوئی۔ آپ اس وقت میرے سینے اور گردن کے درمیان تھے۔ ہماری عادت تھی کہ جب آپ ﷺ بیمار ہوتے تو ہم میں سے کوئی آپ کے لیے دعائیں پڑھ کر شفا طلب کرتی تھی، چنانچہ میں آپ کے لیے شفا کی دعا کرنے لگی تو آپ نے اپنا سر مبارک آسمان کی طرف اٹھایا اور فرمانے لگے: رفیق اعلیٰ میں، رفیق اعلیٰ میں۔ اس دوران میں میں حضرت عبدالرحمٰن بن ابی بکر ؓ پاس سے گزرے جبکہ ان کے ہاتھ میں کھجور کی تازہ مسواک تھی۔ نبی ﷺ نے اس کی طرف نگاہ اٹھائی تو میں نے خیال کیا کہ آپ مسواک چاہتے ہیں۔ میں نے مسواک پکڑی، اس کا کنارہ چبایا اور نرم کر کے اسے آپ ﷺ کے حضور پیش کیا۔ آپ نے اس کے ساتھ مسواک کی اور بہت اچھی مسواک کی۔ پھر وہ مجھے دینے لگے تو آپ کا دست مبارک نیچے جھک گیا یا مسواک آپ کے ہاتھ سے گر پڑی۔ اس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4451]
حدیث حاشیہ:

حافظ ابن حجر ؒ نے مسند احمد کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا:
جس وقت رسول اللہ ﷺ کی روح پرواز ہوئی، اس وقت ہم نے ایسی بہترین خوشبو پائی کہ اس جیسی خوشبو ہم نے زندگی بھر نہ سونگھی تھی۔
(مسند أحمد 6/12۔
122)


اس حدیث میں ایک اشکال ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی نو بیویاں تھیں اور آپ بارہ دن بیماررہے مرض کی ابتدا حضرت عائشہ ؓ کے گھر سے ہوئی۔
حضرت میمونہ ؓ کے گھر بیماری زور پکڑ گئی تو پھر حضرت عائشہ ؓ کی باری پیر کے دن کیسے آگئی؟ اس کا جواب اس طرح دیا گیا ہے کہ حضرت سودہ ؓ نے اپنی باری حضرت عائشہ ؓ کو ہبہ کردی تھی گویا حضرت عائشہ ؓ کی دو باریاں تھیں۔
اس بنا پر ممکن ہے کہ آپ کی بیماری کا آغاز بیت عائشہ ؓ میں ہوا ہو، اور اس دن حضرت سودہ ؓ کی باری کا دن تھا اور تیسرا دن حضرت عائشہ ؓ کی اصلی باری کا ہو تو اس صورت میں بارھواں دن حضرت عائشہ ؓ کا بنتا ہے۔
اگر مرض کی ابتدا حضرت میمونہ ؓ کے گھر سے ہو تو پھر کوئی اشکال نہیں۔
روایات اس امر کی تائید کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی بیماری کا آغاز حضرت میمونہ ؓ کے گھر سے ہوا تھا۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4451   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4463  
4463. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ تندرستی کی حالت میں فرمایا کرتے تھے: کوئی نبی فوت نہیں ہوتا حتی کہ وہ اپنی جگہ جنت میں دیکھ لیتا ہے۔ پھر اسے اختیار دیا جاتا ہے۔ چنانچہ جب آپ ﷺ کی وفات قریب ہوئی اور آپ کا سر مبارک میری ران پر تھا تو آپ پر غشی طاری ہو گئی۔ پھر افاقہ ہوا تو آپ نے گھر کی چھت کی طرف نظر ج دی، پھر آپ نے فرمایا: اے اللہ! میں رفیق اعلیٰ کا طلبگار ہوں۔ میں نے کہا: اب ہمیں اختیار نہیں کریں گے اور مجھے محسوس ہوا کہ یہ وہی کلام ہے جو ہم سے تندرستی کی حالت میں بیان فرمایا کرتے تھے۔ حضرت عائشہ‬ ؓ ن‬ے فرمایا: آپ کا آخری کلام جو آپ کی زبان سے نکلا وہ یہ تھا: اے اللہ! میں اپنے رفیق اعلیٰ کو اختیار کرتا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4463]
حدیث حاشیہ:
رسول اللہ ﷺ کا سر مبارک پہلے حضرت عائشہ ؓ کی ران پر تھا جیسا کہ اس حدیث میں ہے پھر انھوں نے آپ کے سر مبارک کو اپنے سینے اور گردن کے درمیان کر لیا جیسا کہ حدیث 4449 میں ہے لہذا ان دونوں احادیث میں کوئی تضاد نہیں ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4463   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5674  
5674. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نےکہا کہ میں نے نبی ﷺ سے سنا جبکہ آپ میرا سہارا لیے ہوئے تھے: اے اللہ! میری مغفرت فرما، مجھ پر رحم اور مجھے رفیق اعلٰی سے ملا دے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5674]
حدیث حاشیہ:
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کو عنوان کے آخر میں بیان کیا ہے، اس میں اشارہ ہے کہ موت کی آرزو اس وقت منع ہے جب موت کے اثرات سامنے نہ آئے ہوں لیکن جب موت بالکل سر پر آن کھڑی ہو تو اس وقت موت کی دعا کرنا منع نہیں تاکہ اللہ تعالیٰ کی ملاقات میں کوئی چیز حائل نہ ہو۔
(فتح الباري: 162/10)
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5674   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6348  
6348. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ جب تندرست تھے تو فرمایا کرتے تھے کسی نبی کی روح قبض نہیں کی جاتی یہاں تک کہ وہ جنت میں اپنا ٹھکانا دیکھ لیتا ہے اس کے بعد اسے اختیار دیا جاتا ہے جب آپ ﷺ مرض وفات میں مبتلا ہوئے تو اس وقت آپ کا سر مبارک میری ران پر تھا۔ آپ پر تھوڑی دیر کے لیے غشی طاری ہوئی، جب کچھ افاقہ ہوا تو ٹکٹکی باندھ کر آپ چھت کی طرف دیکھنے لگے۔ پھر آپ نے فرمایا: اے اللہ! رفیق اعلٰی کی رفاقت کا طلب گار ہوں۔ میں نے سمجھ لیا کہ آپ ﷺ ہمیں اختیار نہیں کریں گے۔ مجھے یقین ہوگیا کہ یہ وہی بات ہے جو آپ زمانہ تندرستی میں فرمایا کرتے تھے سیدہ عائشہ‬ ؓ ب‬یان کرتی ہیں کہ آپ کا آخری کلمہ یہ تھا جو آپ نے اپنی زبان سے ادا فرمایا: اے اللہ! رفیق اعلٰی کی رفاقت کا طلب گار ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6348]
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک روایت میں ''الرفیق الأعلیٰ'' کی وضاحت کی گئی ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ آخری وقت آپ کو کھانسی آئی اور آپ نے یہ آیت پڑھی:
ان لوگوں کی وفاقت جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا ہے۔
(النساء: 69)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
مجھے یقین آ گیا کہ اب آپ کو دنیا میں رہنے یا آخرت سدھارنے کا اختیار دیا گیا ہے۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4435) (2)
امام بخاری رحمہ اللہ اس حدیث سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت معوذات پڑھ کر خود پر دم نہیں کیا جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا بلکہ ایک روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے صراحت کی کہ میں نے معوذات سے دم کرنا چاہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمان کی طرف اپنا سر اٹھا کر کہا:
(في الرفيق الأعلى)
یعنی رفیق اعلیٰ کی رفاقت چاہتا ہوں۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4451)
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6348   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6509  
6509. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول ﷺ جب تندرست تھے تو فرمایا کرتے تھے: کسی نبی کی روح اس وقت تک قبض نہیں کی جاتی جب تک وہ جنت میں اپنا ٹھکانا نہیں دیکھ لیتے، پھر انہیں اختیار دیا جاتا ہے۔ پھر جب آپ کا سر مبارک میری ران پر تھا تو آپ پر کچھ وقت غشی آئی، پھر جب ہوش آیا تو آپ چھت کی طرف ٹکٹکی لگا کر دیکھنے لگے، پھر فرمایا: اے اللہ! میں رفیق اعلیٰ کو اختیار کرتا ہوں۔ میں نے اس وقت (دل میں) کیا: اب ہمیں اختیار نہیں کریں گے اور مجھے معلوم ہو گیا کہ یہ وہی حدیث ہے جو آپ ہمیں بیان فرمایا کرتے تھے۔ یہ آخری کلمہ تھا جو نبی ﷺ نے اپنی زبان سے ادا کیا: اے اللہ! میں رفیق اعلٰی کو اختیار کرتا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6509]
حدیث حاشیہ:
(1)
رفیق اعلیٰ سے مراد جنتی، یعنی حضرات انبیاء علیہم السلام، شہداء اور صالحین کی جماعت ہے جیسا کہ ایک روایت میں صراحت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر درج ذیل آیت کریمہ تلاوت فرمائی:
ان حضرات کی رفاقت جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا ہے، یعنی انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کے ساتھ اور رفیق ہونے کے لحاظ سے یہ لوگ کتنے اچھے ہیں۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4435، والنساء، 69) (2)
اس حدیث کی عنوان سے اس طرح مطابقت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب موت و حیات کا اختیار دیا گیا تو آپ نے اللہ تعالیٰ کی ملاقات کو پسند فرمایا اور موت کو اختیار کیا، ہمیں بھی ایسے حالات میں رفیق اعلیٰ کو اختیار کرنا چاہیے۔
(3)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بعض شارحین کے حوالے سے لکھا ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس فرشتہ روح قبض کر لینے کے لیے آیا تو انہوں نے کہا:
کیا تو نے کبھی دیکھا ہے کہ کوئی دوست اپنے دوست کو جان سے مار دے؟ اللہ تعالیٰ نے فرشتے کے ذریعے سے یہ پیغام دیا:
کیا کوئی دوست اپنے دوست سے ملنے کو ناپسند کرتا ہے؟ اس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ملک الموت سے فرمایا:
اب میری روح قبض کر لو۔
(فتح الباري: 349/11)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6509