Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

الادب المفرد
كِتَابٌ
كتاب
559. بَابُ مَنْ أُلْقِيَ لَهُ وِسَادَةٌ
جسے تکیہ پیش کیا جائے
حدیث نمبر: 1177
حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ خُمَيْرٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ بُسْرٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ عَلَى أَبِيهِ، فَأَلْقَى لَهُ قَطِيفَةً فَجَلَسَ عَلَيْهَا‏.‏
سیدنا عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے باپ کے پاس سے گزرے تو انہوں نے (بیٹھنے کی درخواست کی اور) چادر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بچھائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر بیٹھ گئے۔

تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه الطيالسي: 1375 و الطبراني فى الدعا: 920»

قال الشيخ الألباني: صحيح

الادب المفرد کی حدیث نمبر 1177 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 1177  
فوائد ومسائل:
(۱)حدیث میں آتا ہے کہ تین چیزیں اگر پیش کی جائیں تو انہیں واپس نہیں کرنا چاہیے، تکیہ، دودھ اور خوشبو۔ تاہم اگر انسان لے کر پاس رکھ لے اور استعمال نہ بھی کرے تو جائز ہے جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تکیہ لے کر درمیان میں رکھ لیا۔ اس سے آپ کی تواضع اور عاجزی کا بھی پتہ چلتا ہے کہ آپ دوسروں سے نمایاں ہونا پسند نہیں کرتے تھے۔
(۲) مٹی وغیرہ سے بچنے کے لیے چادر وغیرہ بچھانا جائز ہے، نیز بزرگوں کا احترام کرنا اور مہمانوں کی عزت و تکریم لازمی ہے۔
(۳) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ان کے ہاں آمد کو اپنے لیے اعزاز سمجھتے اور آپ کی تکریم میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھتے۔
(۴) سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نہایت عبادت گزار نوجوان تھے۔ دن کو روز اور رات کو تہجد پڑھتے۔ شادی ہوئی تو بھی یہ عمل جاری رکھا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی صورت حال بتائی گئی تو آپ نے انہیں سمجھایا کہ اپنے آپ کو اس قدر مشقت میں مت ڈالو اور اپنی بیوی کا حق بھی ادا کرو۔ زیادہ سے زیادہ مہینے میں پندرہ روزے اور تین دن میں قرآن مجید مکمل کرلو۔
(۵) جب ریاکاری کا خدشہ نہ ہو تو انسان اپنے یا اپنی اولاد کے اچھے اعمال کا ذکر دوسروں سے کرسکتا ہے جیسا کہ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے اپنے شاگردوں کو بتایا، نیز اس میں نوجوانوں کے لیے دعوت فکر ہے جو اپنی زندگی کا قیمتی حصہ فضولیات میں ضائع کر دیتے ہیں اور فرائض کی ادائیگی سے بھی غافل ہیں۔
(۶) سیدنا عبداللہ بن عمرو آخری عمر تک اس عمل پر قائم رہے، تاہم بڑھاپے میں مشکلات پیش آئیں تو فرماتے:کاش! میں نے آپ کی دی ہوئی رخصت قبول کی ہوتی۔ کیونکہ عمل خواہ تھوڑا ہو اس پر دوام اور ہمیشگی اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔ نیز انسان اپنی نفلی عبادت میں با اختیار ہے کہ اپنے طور پر اس کی تعداد مقرر کرلے، تاہم مخصوص تعداد کی لوگوں کو دعوت دینا بدعت کے زمرے میں آئے گا۔
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 1177