Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

الادب المفرد
كِتَابُ
كتاب
402. بَابُ قَوْلِ الرَّجُلِ عِنْدَ التَّعَجُّبِ‏:‏ سُبْحَانَ اللهِ
تعجب کے وقت سبحان اللہ کہنا
حدیث نمبر: 903
حَدَّثَنَا آدَمُ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الأَعْمَشِ قَالَ‏:‏ سَمِعْتُ سَعْدَ بْنَ عُبَيْدَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ‏:‏ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي جَنَازَةٍ، فَأَخَذَ شَيْئًا فَجَعَلَ يَنْكُتُ بِهِ فِي الأَرْضِ، فَقَالَ‏:‏ ”مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلاَّ قَدْ كُتِبَ مَقْعَدُهُ مِنَ النَّارِ، وَمَقْعَدُهُ مِنَ الْجَنَّةِ“، قَالُوا‏:‏ يَا رَسُولَ اللهِ، أَفَلاَ نَتَّكِلُ عَلَى كِتَابِنَا، وَنَدَعُ الْعَمَلَ‏؟‏ قَالَ‏:‏ ”اعْمَلُوا، فَكُلٌّ مُيَسَّرٌ لِمَا خُلِقَ لَهُ“، قَالَ‏:‏ ”أَمَّا مَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ السَّعَادَةِ فَسَيُيَسَّرُ لِعَمَلِ السَّعَادَةِ، وَأَمَّا مَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الشَّقَاوَةِ فَسَيُيَسَّرُ لِعَمَلِ الشَّقَاوَةِ“، ثُمَّ قَرَأَ‏:‏ ﴿‏فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَى﴾ [اللیل: 6]‏‏.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک جنازے میں تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی چیز اٹھائی اور اس سے زمین کریدنی شروع کر دی اور فرمایا: تم میں سے ہر ایک کا ٹھکانا جنت اور جہنم میں لکھ دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! کیا ہم اپنے لکھے پر بھروسا کر کے عمل ترک نہ کر دیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عمل کرتے رہو کیونکہ ہر ایک کو اس کی توفیق ملتی ہے، جس کے لیے اسے پیدا کیا گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو اہلِ سعادت ہیں ان کے لیے خوش بختی والے کام آسان کر دیے جاتے ہیں، اور جو بد بخت ہیں ان کے لیے بدبختی والے کاموں کی آسانی کر دی جاتی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت کی: چنانچہ جس نے دیا اور اللہ سے ڈرا اور اچھی بات کی تصدیق کی ......۔

تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب التفسير: 4949، 6217 و مسلم: 2647 و أبوداؤد: 4694 و الترمذي: 3344 و ابن ماجه: 78»

قال الشيخ الألباني: صحيح

الادب المفرد کی حدیث نمبر 903 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 903  
فوائد ومسائل:
(۱)اس حدیث کا بظاہر باب سے کوئی تعلق نہیں الا یہ کہ اس میں معنوی طور پر تعجب کا ذکر ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے فرمایا کہ اگر یہ بات ہے تو پھر ہمیں عمل بھی ترک کر دینے چاہئیں؟
(۲) یہ حدیث تقدیر کے معاملات میں فیصلہ کن ہے اور جبریہ اور قدریہ جیسے گمراہ فرقوں کا اس میں رد پایا جاتا ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ انسان کو وحی الٰہی کے مطابق ربانی تعلیمات پر عمل کرنا چاہیے۔ کیونکہ اسے اسباب کو تلاش کرنے کا پابند بنایا گیا ہے اگر وہ یہ طریقہ اختیار کرے گا تو اس کے لیے جنت کی راہ آسان ہو جائے گی۔ وہ مجبور محض نہیں کہ اسے پکڑ کر ایک راستے پر لگا دیا گیا ہو بلکہ اللہ تعالیٰ نے اسے عقل و شعور سے نوازا، انبیاء اور رسول مبعوث فرمائے، کتابیں نازل کیں اور انسان کو خیر اور شر میں سے ایک کو عمل میں لانے کا اختیار بھی دیا، جیسے رزق کا معاملہ ہے کہ اللہ نے لکھ دیا ہے کہ کس انسان کو کیا ملے گا؟ اب کوئی بھی انسان ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ نہیں رہتا کہ جو میرے مقدر میں ہے مجھے مل جائے گا بلکہ وہ اسباب تلاش کرتا ہے، ان کو اختیار کرتا ہے اور انجام اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیتا ہے۔ اسی طرح انسان کو اچھے اعمال کرکے اسباب مغفرت تلاش کرنے چاہئیں اور انجام اللہ تعالیٰ کے سپرد کرنا چاہیے۔
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 903